You are currently viewing جدید معاشرہ اورہماری زندگی

جدید معاشرہ اورہماری زندگی

کبھی کبھی انسان اپنے حالات سے پریشان ہو کر اس تانے بانے میں الجھ جاتا ہے کہ آخر زندگی محض جینے کا نام ہے یا اس کے ساتھ ان حالات سے لڑنا جوہمیں سماج، خاندان اور دنیا میں ایک معتبر اور نیک انسان بناتا ہے۔ویسے تو زندگی محض صرف جینے کا نام تو نہیں ہے اور اس کے ساتھ وہ تمام باتیں ہمارے ساتھ سفر کرتی رہتی ہیں۔

 بچپن سے جوانی اور ضعیف ہونے تک پریشانیاں، دشواریاں، تنگی، خوشیاں، بیماریاں، اور نہ جانے کیا کیا اچھے اور برے حالات اور واقعات جس سے ہم سب کو دو چار ہونا پڑتا ہے۔آئے دن ہمیں کوئی نہ کوئی ایسی بات پریشان یا خوش کرتی ہے جو ہمیں کبھی جینے کا حوصلہ بڑھاتی ہے تو کبھی ہمارے حوصلے کو پست کرتی ہے۔لیکن ہم سب ان باتوں کے ساتھ جینے کے عادی ہو چکے ہیں اور اس طرح ہماری زندگی دھیرے دھیرے زینے طے کر کے اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے جہاں یا تو ہم اپنی یادیں چھوڑ جاتے ہیں یا ہمارا نام لینے والا کوئی نہیں ہوتا ہے۔

مولانا رومی مثنوی میں فرماتے ہیں: ’انسان کا سر بے معنی دنیاوی معاملات کے علم سے معمور ہوسکتا ہے، وہ تمام سائنسی علوم سے واقف ہوگا اور پھر بھی اپنی جان کو نہیں جان سکتا ہے۔ وہ ہر مادہ کی خصوصی خصوصیات کو جانتا ہے، لیکن وہ اپنے جوہر کی نوعیت کے بارے میں گدھے کی طرح جاہل ہے‘۔ انہوں نے اعلان کیا: ’مجھے معلوم ہے کہ کیا جائز ہے اور کیا نہیں لیکن  وہ نہیں جانتا ہے کہ اس کے اپنے کام جائز ہیں یا نہیں۔ اسے خریدنے اور بیچنے والے ہر مضمون کی صحیح قیمت معلوم ہے لیکن اپنی حماقت میں اسے اپنی قیمت معلوم نہیں ہے۔ اس نے اچھے ستاروں کو غیر مہذب ستاروں سے ممتاز کرنا سیکھاہے لیکن وہ یہ جاننے کے لئے اپنی روح کی جانچ نہیں کرتا ہے کہ وہ خوش قسمت ہے یا ناقص روحانی حالت میں ہے‘۔ اپنے آپ کو جاننا اور قیامت کے دن کی امید میں اپنی زندگی بسر کرنا، اعلیٰ ترین سائنس پر عبور حاصل کرنے کے برابر ہے۔

 برطانیہ میں مارچ کے مہینے سے کورونا کی آمد سے جس طرح ہماری زندگی میں ایک انقلاب آیا ہے اس سے ہم اور آپ سب واقف ہیں۔ چنانچہ ہماری زندگی پہلے تو یوں لگا کہ ٹھہر سی گئی تھی۔ آئے دن کورونا کا خوف اور اموات سے لوگوں میں ایسا دہشت پھیلا کہ اب کیا مرد اور عورت سبھی منہ چھپائے پھر رہے ہیں۔کتنی عجیب بات ہے کچھ سال پہلے مسلم خواتین کو منہ چھپانے پر جرمانہ اور گرفتاری کا حکم صادر کیا گیا تھا۔ اگر انسانی حقوق کی بات کی جائے تو دنیا میں اس قانون اور اصول کے تحت ہر انسان کو اپنی مرضی سے جینے اور زندگی گزارنے کا حق ہے۔آپ کو تو یاد ہی ہوگا برطانوی وزیر اعظم کا وہ مضحکہ خیز کالم جس میں انہوں نے ان برقعہ پوش مسلم عورتوں کا مذاق یہ کہہ کر اڑایا تھا کہ وہ لیٹر باکس دِکھتی ہیں۔ ہائے رے قدرت کی شان، اب تو ہم سب ہی منہ چھپائے گھوم رہے ہیں۔ دراصل یورپ کے کچھ قدامت پسند اور نسل پرست رہنما ؤں کو مسلمانوں سے خاص پریشانی اور الجھن ہونے لگی تھی۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان رہنماؤں کے جھانسے میں آنے والے لوگوں کو بھی مسلمانوں کے مذہب، پوشاک،اور رہن سہن وغیرہ پر آئے دن طعنے کسے جانے لگے۔لیکن قدرت کا بھی کھیل نرالا ہے۔

 وہ تو رحیم اور کریم ہے اس نے بھی ہمیں کورونا کی ایسی وبا میں الجھایا کہ پوری دنیا میں ایک خوف سا طاری ہوگیا اور سبھی کو اپنی جان بچانے کی پڑی ہے۔ظاہر سی بات ہے اللہ ہمارے دلوں کا حال جانتا ہے اور وہ انسان پر ظلم کو برداشت نہیں کر سکتا ہے۔یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اللہ کا قہر جب آتا ہے تو وہ کسی خاص جگہ یا قوم پر نہیں آتا بلکہ اس کا دائرہ اتنا وسیع ہوتا ہے کہ ظلم کرنے والا خواہ وہ کسی ملک یا مذہب کا ہو اللہ کی سزا سے بچ نہیں سکتا ہے۔

کورونا سے جہاں ہمارے اند رتبدیلی آئی ہے وہیں روزمرہ کی زندگی پر بھی ا س کا بہت بڑا اثر ہوا ہے۔ہمارا رہن سہن، مزاج، کام و کاج کا طریقہ، رسم و رواج، تقریبات وغیرہ ایسی اہم باتیں ہیں جو خاص کر اثر انداز ہوئے ہیں۔تاہم نہیں بدلا ہے تو انسان کا عزم اور امیدیں، جس کی وجہ سے ہم اور آپ زندگی کو اپنے اپنے طور پر جی رہے ہیں اور اس امید کہ ساتھ کہ ہم دوبارہ اپنی اس زندگی کی طرف لوٹ جائے گیں جو پچھلے کئی مہینوں سے تھم سی گئی ہے۔

پروفیسر ای ایف سوماکر نے اپنی کتاب  ’سمال اس بیوٹی فل‘  میں جدید معاشرے کے بنیادی عقائدکی چھ اہم خیالات کو یوں بتایا ہے۔ پہلا،نظریہ ارتقا ہے جو نچلی سطح سے اب بھی اوپری سطح کو سفر کر رہا ہے۔ دوسرا،بہترین کی بقا جس میں قدرتی انتخاب یا مقابلہ ہے۔ تیسرا، تمام انسانی زندگی کی اعلی توضیحات جیسے مذہب، فلسفہ، آرٹ کچھ بھی نہیں ہیں بلکہ مادی زندگی کے عمل کی تکمیل ہیں۔پوری انسانی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے۔ چوتھا، انسانی زندگی اورادھوری خواہشات کی جدوجہد اور بچپن کی خواہشات۔ پانچواں،نسبت پسندی کا خیال، تمام اصولوں کو تحلیل کرنے سے انکار کرنا اور حق کے خیال کو مجروح کرنا اور عملیت پسندی۔ چھٹّا، مثبت پسندی ہر طرح کے معنی اور مقصد کے بارے میں علم کے امکان کو جاننے کے باے میں جانتی ہے۔پروفیسر سوماکر کا کہنا ہے کہ حالانکہ یہ بنیادی عقائد حقیقت کا عنصر ہیں لیکن وہ حقیقت سے بہت دور ہیں۔

جدید معاشرہ یوٹوپیا (ایک تصور شدہ کمیونٹی یا معاشرہ جو اپنے شہریوں کے لئے انتہائی مطلوبہ یا کامل خصوصیات کا حامل ہے)  پر یقین رکھتی ہے، جو ایک تصور شدہ کامل مقام ہے۔ جو ایک علمی اور تکنیکی ترقی کے ذریعہ انسانی وسائل کے لیے یوٹاپیا کی تلاش کی جارہی ہے۔یہ دنیا کی برائی کو مذہبی معنوں میں قبول نہیں کرتا ہے اور اس کا مقصد خدا کے بغیر ترقی کرنا ہے۔  اس کے بر عکس اسلام کے بنیادی عقائد اس سے مختلف ہیں۔ اسلام اس کے بر عکس سوچنے کا متبادل نمونہ فراہم کرتا ہے اور اخلاقی اور روحانی اصولوں اور نظریات کو علم کے بنیادی ماخذ کے طور پر پیش کرتا ہے۔مغربی افکار کے بر عکس اس کی وجہ وحی سے آزاد نہیں ہے اوردوسری طرف، وحی اور الہام دونوں کو مسترد کر دیا ہے۔ اسلام  کے تین بنیادی عقائد ہیں۔ خدا، وحی اور اس کے بعد کی زندگی۔

جدید افکار کی ایک خوبی یہ ہے کہ اس کے ظاہری ظاہری شکل کے ساتھ جنون ہے جبکہ باطنی اور پوشیدہ چیزوں پر تھوڑا سا بھی نوٹس نہیں لیا جاتا ہے۔ اسلامی تعلیمات ظاہری اور باطن سے رشتہ قائم کرتی ہیں۔ مسلم فلسفی اور شاعر رومی نے کہا ہے کہ ’خالص دل ایک بے داغ آئینہ ہے جس میں لامحدود خوبصورتی کی تصاویر جھلکتی ہیں۔ اپنی انا کی گائے کو جتنی جلدی ہو سکے مارڈالو  تاکہ آپ کی اندرونی روح آپ کی زندگی میں آجائے اور حقیقی آگاہی حاصل کر سکے‘۔

اس طرح مولانا رومی،مثنوی میں فرماتے ہیں کہ ایک صبح ایک عورت نے اپنے شوہر کو آزمانے کے لیے پوچھا کہ ’کیا آپ مجھ سے خود سے زیادہ پیار کرتے ہو؟‘ اس نے جواب دیا، ’میں تم سے اتنا پیار کرتا ہوں کی میں سر سے پیر تک آپ سے بھرا ہوں۔ میرے نام کے سوا میرے اپنے وجود کا کوئی وجود باقی نہیں بچا ہے‘۔ اگر آپ خدا سے محبت کرتے ہیں تو آپ اس کی موجودگی کو اسی طرح محسوس کریں گے جیسے اس پریمی نے اپنے محبوب کے بارے میں محسوس کیا تھا۔

کورونا جہاں ہماری زندگی میں ایک بہت بڑا انقلاب لایا ہے تو وہیں ہم اپنے عقیدے کے تحت اس بات پر بھی قائم ہیں کہ ہمارا ایمان اور عقیدہ کورونا جیسی وبا سے تبدیل نہیں ہوسکتا۔چاہے معاشرہ جدید ہو یا تبدیل ہو ہم اللہ کی ذات پر یقین رکھیں گے اور اپنی زندگی کو سادگی اور سلیقے سے گزارتے رہیں گے۔

Leave a Reply