You are currently viewing بھارت میں بیوی کو قتل کرنے کا انوکھا کیس

بھارت میں بیوی کو قتل کرنے کا انوکھا کیس

میاں بیوی کا رشتہ ایک ایسا رشتہ ہے جسے سماج میں آج تک ایک اہم اور مثالی رشتہ مانا  جاتا ہے۔ خاندان کو فروغ دینے کے لیے بھی ہمارے سماج میں میاں اور بیوی کا رول اہم ہے۔

اس کے علاوہ خاندان کو بڑھاوا دینے کے لیے شادی کرنا اہم مانا جاتا ہے جسے تقریباً تمام مذاہب کے لوگ بھی مانتے ہیں۔ اگر ہم برصغیر کی آبادی پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو ایک بات تو صاف عیاں ہیں کہ سماج میں سر اٹھا کر جینے کے لیے شادی بہت ضروری ہے۔ پھر بچہ کا پیدا ہونا اس سے زیادہ ضروری ہے اور پھر خاندان کا قائم ہونا ان تمام باتوں میں ایک اہم ہوتا ہے۔

 برطانیہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں شادی کا رواج آج بھی عام اور اہم مانا جاتا ہے۔ تمام مذہب کے لوگ شادی کونسل کے فروغ اور بقا کے لیے اب بھی اولین ترجیحات میں شامل کرتے ہیں۔ تاہم وہیں بہت سارے لوگ شادی کو ایک فرسودہ رسم  مانتے ہیں اورکسی کے ساتھ بھی زندگی گزربسرکرنے کے لیے شادی کرنا ضروری نہیں سمجھتے ہیں۔ لیکن مجھے تو معاشرے میں عزّت ووقار اور نسل نوکی بقا کے لیے شادی ایک ضروری عمل لگتا ہے ۔سماجی پہلو کا ایک دل چسپ مرحلہ یہ ہے کہ شادی کسی کی بھی ہو، ہمیں تومزے دار دعوت اور لذیذ پکوان چٹ کرنے کا موقعہ مل ہی جاتا ہے۔ تاہم کبھی کبھی انہی لذیز پکوان کھانے کی وجہ سے نہ جانے کتنے لوگ شوگر، ذیباطیس، دل کی بیماری وغیرہ کو جھیلتے ہوئے اللہ کو بہت جلد پیارے بھی ہوجاتے ہیں۔

برطانیہ میں شادی کرنا اب بھی سماج کی ایک اہم روایت مانی جاتی ہے۔ تاہم اب زیادہ تر شادیاں تفریح کے طور پر ہو رہی ہیں اور لوگ مذہبی طور پر شادی کو انجام دینا ضروری نہیں سمجھتے۔ کافی لوگ شادی کو ایک فرسودہ رسم بھی سمجھ رہے ہیں۔ لوگوں کا ماننا ہے کہ ایک مرد اور عورت کو ایک ساتھ رہنے کے لئے شادی کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر لوگ شادی کرنے کے بعد اپنی زندگی کو ایک قید کی زندگی سمجھتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ میاں اور بیوی کے مابین توں توں میں میں شروع ہو جاتی ہے اور نتیجہ طلاق تک پہنچ جاتا ہے۔ ان ہی باتوں کی وجہ سے لوگوں میں شادیاں اب بے اثر ہوتی جارہی ہے۔ اور کبھی کبھی معاملہ اتنا سنگین ہوجاتا ہے کہ بات جان لینے تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اکثر یہ دیکھا جاتا ہے کہ شوہر اور بیوی کے بیچ جھگڑے کی ایک اور وجہ ’زن، زر، زمین‘ ہوتاہے۔ جس کی وجہ سے آئے دن یہ سننے کو ملتا ہے کہ کسی شوہر کو کسی نے جان سے مار دیا، یاکسی بیوی کا کسی نے قتل کردیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ شوہر یا بیوی کافی صفائی سے اس کام کو انجام دے کر معصوم بن کر ٹی وی کیمرے پر آکر مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہیں کہ صاحب مت پوچھئے۔ دیکھ کر ہماری آنکھیں بھی نم ہوجاتی ہیں۔ کبھی شوہر کانپتے ہاتھوں اور ہونٹ سے دھیرے دھیرے جب پوری بات سناتا ہے تو خدا گواہ مرنے والے شوہر اور بیوی پر تو افسوس ہوتا ہی ہے لیکن وہیں ہم افسردہ ہوکر بات کرنے لگتے ہیں کہ اللہ نے کس عذاب میں فلاں آدمی یا عورت کی جان ڈال دی جس کے شوہر یا بیوی کو اس بے دردی سے قتل کردیا گیا یا مار ڈالا دیا گیا۔

لیکن خود پر تب افسوس ہوتا ہے جب پولیس اسی کانپتے ہاتھ وہونٹ اور رونے والے شوہر یا بیوی کو گرفتار کر کے اس کا جرم ثابت کر دیتی ہے تو ہم خود خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ یعنی جو ٹی وی کے سامنے رو رو کر اپنے ہر دلعزیز شوہر اور بیوی کی جان جانے پر ہائے ہائے کر رہے تھے اور مجرم کو پکڑنے کی اپیل کر رہے تھے۔ وہ خود ہی قاتل نکلا۔ اس وقت تو میرے منہ سے بھی بے ساختہ نکلتا کہ ’یا اللہ کیا یہ واقعی سچ ہے‘۔ اس کے بعد تھوڑی دیر کے لیے ہم اپنے شوہر اور بیوی کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں اورکچھ پل کے لیے اپنی زندگی کی بھی کی فکر ہونے لگتی ہے۔ کون جانے کب کس اس حادثے کا شکار ہوجائے۔ ویسے اللہ نہ کرے کہ ایسا نہ ہو۔ پھر بھی ہم سب کواحتیاط برتنا چاہیے۔

حال ہی میں ہندوستان میں ایک شخص، جسے اپنی بیوی کو کوبرا کاٹنے سے قتل کے جرم میں سزا سنائی گئی۔ اس شخص کو ڈبل عمر قید کی سزا دی گئی ہے۔ سورج کمار کو گزشتہ سال اس کی بیوی اتھرا کی سانپ کاٹنے سے موت کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس نے اس کے اہل خانہ کے مبینہ قتل کے بعد تفتیش شروع کی اور کہا کہ سورج جہیز کے لیے انہیں ہراساں کر رہا تھا۔ عدالت نے اس شخص کو کوبرا سانپ کو بستر پر چھوڑنے کا مجرم پایا جبکہ اس کی بیوی اتھرا اس وقت سو رہی تھی ۔ 25سالہ گھریلو خاتون گزشتہ سال مئی میں اپنے گھر میں مردہ پائی گئی تھی۔ اس کے بعد اتھرا کا خاندان مشکوک ہوگیا کیونکہ اتھرا کو چند ہفتے قبل جب سانپ نے کاٹا تھا تو وہ صحت یاب ہورہی تھی۔ لیکن دوبارہ کوبرا کے کاٹنے کے بعد اتھرا کے گھر والوں کا شک اس کے شوہر پر پختہ ہوگیا۔ پولیس نے چھان بین کرنے کے بعد اتھرا کے شوہر کو گرفتار کر لیا کیونکہ پولیس کو یقین تھا کہ اتھرا کو دو بار سانپ کاٹنے کے پیچھے اس کے شوہر کا ہی ہاتھ تھا۔ پولیس نے اسی دوران ایک ایسے شخص کو بھی گرفتار کیا جس نے سانپوں کی خریداری میں اس کی مدد کی تھی۔ جس کے بعد سانپ فراہم کرنے والے شخص نے اعتراف کیا کہ اس نے ہی اتھرا کے شوہر کو دو سانپ دیے تھے۔ جس کی وجہ سے پولیس کو اس کیس کو سلجھانے میں کافی مدد ملی۔

ہندوستانی پولیس نے ایک ہزار صفحات پر مشتمل سورج کمار کے خلاف دستاویز کوتیار کیا تھا۔ جس میں سورج کمار نے کس طرح اپنی بیوی اتھرا کو جان سے مارنے کی سازش رچی تھی، بیان کیا گیا تھا۔ اس میں سورج کمار کی منصوبہ بندی، اور اس پر عمل درآمد کی تفصیلی سازش کی رپورٹ تھی۔ ایسا مانا جارہا ہے کہ یہ ایک ’نایاب کیس‘ ہے جس میں ملزمان کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ تاہم جج نے بھی ا س بات سے اتفاق کیا کہ یہ ایک نایاب کیس ہے اور سورج کمارکو دوہری عمر قید کی سزا سنائی اور اسے پانچ لاکھ روپے جرمانہ بھی ادا کرنے کا حکم دیا۔

کچھ مہینے قبل برطانیہ میں بھی ایک ہندوستانی شوہر کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ جناب کو آسٹریلیا کے ایک مرد حضرت سے پیار ہوگیا تھا۔ ہندوستانی مرد گجراتی تھا اور اس کے لیے یہ بات کافی دشوار تھی کہ وہ اپنے خاندان اور بیوی کو یہ بتائے کہ اسے ایک مرد سے پیار ہوگیا تھا۔ اسی الجھن میں ہندوستانی مرد نے اپنی بیوی کا قتل کر دیا اور پولیس کو یہ بتایا کہ گھر پرڈکیتی کے دوران میری بیوی کو مار ڈالا۔ تاہم کچھ مہینے کی چھان بین کے بعد ہندوستانی مرد مجرم پایا گیا اور اب وہ جیل میں رات دن یہی کہہ کر اپنا وقت گزار رہے ہیں کہ ’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم‘۔ اس طرح سے پوری دنیا میں نہ جانے کتنے جرائم شوہر اور بیوی کے درمیان پائے جاتے ہیں۔ کچھ تو پولیس کی ایمانداری اور محنت سے سامنے آجاتے ہیں اور کچھ ہمیشہ کے لیے معمہ بن کر رہ جاتے ہیں۔

کوبرا سانپ کے ذریعہ اتھرا جیسی معصوم بیوی کی جان لینا ایک نہایت شرمناک بات ہے۔ جس کے لیے سورج کمار کوہندوستانی عدالت کی دوہری عمر قید کی سزا دینا بھی ایک نایاب قدم ہے۔ سورج کمار نے کوبرا سانپ کا استعمال کر کے اپنی بیوی کی جان لے کر یہ سوچا کہ وہ پولیس اور خاندان والوں کی آنکھ میں دھول جھونک کر اپنے مقصد میں کامیاب ہوجائے گا۔ لیکن ہندوستانی پولیس کی محنت اور لگن نے سورج کمار کو مجرم ثابت کر دیا جس کے لیے ہندوستانی پولیس مبارک باد کی مستحق ہے۔ کہتے ہیں کہ جرم کیسا بھی ہو، قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں۔

Leave a Reply