You are currently viewing !بھارتی حکومت جان لے احتجاج ہمارا بنیادی حق ہے

!بھارتی حکومت جان لے احتجاج ہمارا بنیادی حق ہے

یہ بات 1980کی ہے جب میں کلکتہ کے محمد جان ہائی اسکول کاطالب علم تھا۔نویں جماعت کا طالب علم ہوتے ہوئے ہم سب اس بات سے دکھی تھے کہ بہت سارے ٹیچروں کی غیر حاضری کی وجہ سے ہماری پڑھائی برباد ہورہی تھی۔

ایک دن ہم نے اپنے چند ساتھیوں سے مشورہ کیا کہ یار ہمیں اب کچھ کرنا پڑے گا اور پھر چند دوستوں کے مشورے کے بعد ہم سب نے ٹیچر کی غیر حاضری کے خلاف ایک دن کلاس  کا بائیکاٹ کر کے احتجاج شروع کر دیا۔ابھی ہم احتجاج کر ہی رہے تھے کہ اچانک شیر کی طرح چنگھاڑتے ہوئے ہیڈ ماسٹر مرحوم اختر حسین ہاتھ میں ڈنڈا لیے ہم سب پر دھاوا بول دیا۔ مارے خوف ہم سبھی کلاس میں واپس چلے گئے لیکن مرحوم اختر حسین کا غصہ تب کم ہوا جب انہوں نے طلباپر اندھا دھند ڈنڈے برسائے۔مجھے بھی کچھ ڈنڈے کھانے پڑے۔ لیکن ظلم تو تب ہوا جب ہیڈ ماسٹر اختر حسین  تمام طلبا  کو مارتے ہوئے پوچھنے لگے کہ بتاؤ، کون ہے تمہارا لیڈر جس نے احتجاج کے لیے اکسایا ہے۔

 خیر ایک میر جعفر تو ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔پوری کلاس مار کھا ہی رہی تھی کہ ہمارے ایک ساتھی نے ہیڈماسٹر اختر حسین کو میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ  یہ ہمارا لیڈرہے۔ بس جناب زندگی میں پہلی بار اتنے ڈنڈے میرے جسم پر پڑے کہ میں حواس باختہ ہوگیا اور اس دن سے آج تک میں نے ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور حق کی خاطر تن تنہا لڑتا جارہا ہوں۔ تاہم1987 میں جب میں مولانا آزاد کالج کلکتے کے اسٹوڈنٹس یونین کا جنرل سیکریٹری بنا تو مجھے اس بات کا اندازہ ہوگیا کہ جس لڑکے نے اسکول میں میر جعفر بن کر مجھے “لیڈر”بتا یا تھا اس کی بات سچ نکلی اور ہم نے اپنی زندگی کا سیاسی کئیریر کا آغاز  شان و شوکت  سے کرتے ہوئے اپنے دور میں اپنے حقوق کے لیے اور ظلم و زیادتی کے خلاف بے شمار حتجاج کئے جو کہ ہمارا بنیادی حق تھا۔

احتجاج اپنی نوعیت کے اعتبار سے اکثر جھنجھلاہٹ اور تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ عام زندگی گزارنے میں جو رکاوٹیں ہیں اس میں یہ مسائل کی طرف توجہ دلاتی ہے اور عوامی بحث کومتحرک کرتی ہے۔آج ہم جن حقوق اور آزادیوں کو قبول کرتے ہیں ان میں سے بہت سے ایسے اقدامات کے ذریعے محفوظ کیے گئے ہیں جو اس وقت بہت سے لوگوں کے لیے خاصی پریشانی اور تکلیف کا باعث ہے۔بہت سے بین الاقوامی معاہدوں میں احتجاج کے حق کے واضح الفاظ موجود ہیں۔ ایسے معاہدوں میں 1950کا یورپی کنونشن برائے انسانی حقوق، خاص طور پر آرٹیکل 9سے 11شامل ہیں۔ 1966کا بین الاقوامی معاہدہ برائے شہری اور سیاسی حقوق، خاص طور پر آرٹیکل 18سے 22ہے۔آرٹیکل 9   ’فکر، ضمیر اور مذہب کی آزادی کے حق‘ کی وضاحت کرتا ہے۔ آرٹیکل   11 ’دوسروں کے ساتھ وابستگی کی آزادی کا حق بشمول اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ٹریڈ یونین بنانے اور اس میں شامل ہونے کا حق‘۔  تاہم ان اور دیگر معاہدوں میں اجتماع کی آزادی کے حقوق، انجمن کی آزادی، اور تقریر کی آزادی کچھ حدود کے تابع ہیں۔ مثال کے طور پر  شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے میں  ’جنگ کے پروپگنڈے اور  قومی، نسلی یا مذہبی منافرت‘ کی وکالت پر پابندیاں شامل ہیں۔ اور یہ اجتماع کی کی آزادی پر پابندی کی اجازت دیتا ہے۔ اگر یہ ضروری ہو جمہوری معاشرے میں قومی سلامتی یا عوامی تحفظ، امن عامہ، صحت عامہ یا اخلاقیات کے تحفظ کے لیے ہے۔ تاہم، ضروری نہیں کہ احتجاج پر تشدد ہو یا قومی سلامتی یا عوامی تحفظ کے مفادات کے لیے خطرہ ہو۔

ہندوستانی آئین کاآرٹیکل 19آزادی اظہار رائے، ریاست کے خلاف اپنے شہری کو دیا گیا ایک بنیادی حق ہے، جس میں پر امن عوامی مظاہرے کرنا بھی شامل ہے۔جدوجہد آزادی کے دوران ہندوستانیوں نے بڑی حد تک پر امن احتجاج کے ذریعے آزادی کی بنیاد رکھی۔ 1915 میں گاندھی جی نے ستیہ گرہ متعارف کرایا، جو کہ ایک ایسی تحریک تھی جو مضبوطی سے عدم تشدد کی مزاحمت پر مبنی تھی اور سچائی کو اپنی طاقت بناتی تھی۔ اور بعد میں برسوں تلک متعدد تحریکیں عدم تشدد پر مبنی پر امن مارچ تھیں جس کی وجہ سے ہندوستانیوں کی غلامی  ختم ہوئی۔

حال ہی میں ہندوستان میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو ارکان کی طرف سے پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز تبصرے پر ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں کے خلاف پولیس کے کریک ڈاؤن کے دوران تشدد میں دو نوجوان مارے گئے۔14سالہ مدثر اور 19سالہ ساحل انصاری کے اہل خانہ نے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے الزام لگایا کہ پولیس نے مظاہرین کے خلاف غیر متناسب طاقت کا استعمال کیا جنہوں نے مشرقی جھاڑکھنڈ ریاست کے دارالحکومت رانچی میں جمعہ کی نماز کے بعد بی جے پی کے دو عہدیداروں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔اس کے علاوہ بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں بھی کئی مقامات پر مظاہروں نے پر تشدد شکل اختیار کر لی کیونکہ پولیس نے احتجاج روکنے کے لیے طاقت کا استعمال کیا۔سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ سہارنپور میں پولیس چند مظاہرین کو ایک کمرے میں لاٹھی سے بے رحمی سے پیٹ رہی ہے۔اس کے علاوہ پولیس اور حکومت ظلم یہاں بھی نہیں ٹھہرا اور حکومت نے بولڈوزر کے ذریعے مطاہرین کے مکانات کو نیست نابود کردیا۔

اس واقعے کے بعد پوری دنیا میں ہندوستانی حکومت کی خاموشی اوراتر پردیش کی پولیس کی بربریت اور ظلم پر حیرانی جتائی جارہی ہے۔سمجھ میں یہ نہیں آرہا ہے کہ ہندوستانی پولیس کو احتجاجیوں کو ہٹانے کے لیے لاٹھی اور بندوق کی ضرورت کیوں آپڑی۔ اس کا جواب تو یہی ہوگا کہ احتجاجی مسلمان تھے۔اگر ہم پچھلے چند برسوں میں ہندوستان کی انتہا پسند ہندو تنظیموں کا جائزہ لیں تو اس وقت ہندوستانی پولیس تو انہیں ہٹانے کے لیے بات چیت کرتی دکھا ئی دیتی ہے۔ جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی پولیس کو شاید حکومت کا صاف اشارہ ہے کہ مسلمانوں کے احتجاج میں صرف لاٹھی یا بندوق کا استعمال کیا جائے جس سے نسل پرسی کی بو آتی ہے جو کہ ایک شرمناک بات ہے۔

پر امن احتجاج کا حق جمہوری غبارے کا ایک گرہ ہے۔ جس طرح گرہیں غبارے کے اندر ہوا کو روکتی ہیں،اسی طرح یہ جمہوریت کی روح کو برقرار رکھتی ہے۔تھوڑی دیر کے لیے اگر ہم ہندوستان کی مثال لیں تو ہندوستان میں کئی برسوں سے اختلاف رائے کوڈ ی کوڈ کرنے کے لیے پر امن احتجاج کا مشاہدہ کیا جارہا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک جن کی اولین فکر اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود، انسانی حقوق کی تحفظ، جمہوریت کی روح کو برقرار رکھنا اور اپنے لوگوں کی سالمیت اور وقار کی وکالت کرنا ہے، وہی وہ ہمیشہ احتجاج کرنے والے سے اختلاف رائے کا اظہار کرنے کا حق بھی رکھتے ہیں۔ بہت سے بین الاقوامی معاہدوں میں پوری دنیا میں عام طور پر انسانی حقوق اور انسانوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے احتجاج کے حق کا واضح اظہار ہوتا ہے۔

میرا ماننا ہے کہ اجتماعی آزادی ایک بنیادی حق ہے اور مضبوط اور متحرک جمہوریتوں کو یقینی بنانے کے لیے اہم ہے۔احتجاج لوگوں اور مسائل کو آواز دینے اور اداروں کو ان کے اعمال کا محاسبہ کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔احتجاج کا حق جمہوریت کا ایک اہم حصہ ہے۔ پر امن احتجاج،آزادی یا اپنے مقصدیا زیادتی کی طرف پہلا قدم ہے اور ہمیں ہمیشہ اسے اپنے تحفظ اور مشقت کا ایک طاقتور ہتھیار سمجھنا ہے۔ ہمیں اپنے حقوق کے لیے لڑنا چاہیے اور دوسروں کے حقوق کو پامال کیے بغیر اور دوسروں کے زندگی اور جذبات کو متزلزل کیے بغیر اپنی قوم کے لیے کھڑے رہیں چاہے وہ آپ کے حق میں ہو یا نہ ہو۔

Leave a Reply