You are currently viewing بنگال کی شیرنی ممتا بنرجی کی شاندار جیت

بنگال کی شیرنی ممتا بنرجی کی شاندار جیت

اتوار 2 مئی کولندن میں صبح کے چار بج رہے تھے۔رمضان کی وجہ کر مجھے سحری کے لیے اٹھنا تھا۔ سحری کھا کر فجر کی نماز پڑھنے کے بعد جب بستر پر لیٹا تو نیند کاکوئی اتاپتہ نہیں تھا۔ بنگال سمیت ہندوستان کے چار ریاستوں کے الیکشن کے نتائج آنے والے تھے۔

پہلے موبائل فون کے ذریعہ این ڈی ٹی وی پر نظر ڈالی توبنگال کے نتائج بی جے پی پارٹی کے حق میں دکھائے جارہے تھے۔ تاہم یہ خبر الیکشن کے گنتی کے پہلے مرحلے کی تھی۔کچھ پل کے لیے ذہن پریشان ہوگیا کہ یا اللہ کہیں مودی اور اس کے ناپاک ارادے بنگال کی پاک زمین کو برباد نہ کر دے۔ اب تو نیند کوسوں دور جاچکی تھی۔ بستر پر کروٹ لیتے لیتے تھک چکا تھا۔ پھر بستر سے اٹھا اور ٹیلی ویژن آن کر کے مختلف ہندوستانی چینل دیکھنے لگا۔ اس وقت تھوڑی راحت یہ ملی جب بنگال میں ممتا کی پارٹی کو برتری حاصل ہونے لگی۔

بنگال کا الیکشن کیوں پوری دنیا کی نظر کا مرکز بنا ہوا تھا۔ شاید اس کی ایک وجہ ممتا بنرجی کا مودی پر پلٹ وار یا پھران کا دوبارہ اقتدار میں آنا یا ہارناتھا۔ یا دوسری وجہ کورونا سے بگڑتی صورتِ حال میں بھی الیکشن  کروانا تھا۔ ان تمام باتوں کو بالائے طاق رکھ کر ہندوستان کا الیکشن کمیشن انتخاب کروانے پر  مصر تھا۔ تاہم کئی بار الیکشن کمیشن پر انگلیاں اٹھائی گئیں کہ الیکشن کمیشن بھارتیہ جنتا پارٹی کے اشارے پر کام کر رہا ہے۔ کئی سیاسی ماہرین نے بھی الیکشن کمیشن پر جانبداری کا الزام بھی لگایا۔

یوں تو آج کل برطانیہ کی نیوز ایجنسیاں روزانہ کورونا سے بے حال ہندوستان کی خبریں مسلسل دکھا رہی ہیں لیکن وہیں گاہے بگاہے ہندوستان کی ریاستی الیکشن کا بھی ذکر خبروں میں دیکھا گیا۔ جن میں الیکشن کمیشن کی کورونا سے لاپرواہی سے لے کر ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی الیکشن ریلیوں کا بھی تذکرہ رہا۔ اس کے علاوہ ان خبروں میں اس بات پر بھی حیرانی جتائی جا رہی تھی کہ کیونکر سیاسی پارٹیاں کورونا سے لاپرواہ ہو کر الیکشن ریلیاں کر رہی ہیں جہاں لوگوں کی بڑی بھیڑ جمع ہو کر کورونا کو پھیلانے میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔تاہم الیکشن کے آخری مرحلے میں کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی نے کورونا کی بگڑتی صورتِ حال کے پیش نظر اپنی ریلیوں کو منسوخ کر دیا تھا۔

 ممتا بنرجی کی کامیابی کی خبر اور ان کی پارٹی کی جیت کے جشن کو لندن میں بھی محسوس کیا گیا اور وہ تیسری بار بنگال کی وزیر اعلیٰ بن گئیں۔ہندوستان کی چار ریاستوں میں لمبی مدت تک چلنے والے الیکشن کے بعد آخر کار اس کا نتیجہ حسبِ اعلان اتوار 2مئی کو منظر عام پر آ گیا اور بی جے پی کی تمام تر کوششوں کے باوجودمغربی بنگال میں ایک بار پھر ممتا بنرجی کی ترنمول پارٹی نے یہ ثابت کردیا کہ مغربی بنگال کے لوگ اب بھی ترنمول  کواقتدارمیں دیکھنا چاہتے ہیں۔

ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو ممتا اور ان کی ٹیم نے پچھلے کئی برسوں میں مغربی بنگال کے عوام کو مایوسی کی اس دلدل سے باہر نکالا ہے جس میں  لوگ پھنسے ہوئے تھے۔حالانکہ اب بھی مغربی بنگال میں اس حد تک ترقی نہیں ہوسکی ہے جس کی ریاستی حکومت کو امید ہے۔ جس کی کئی وجوہات ہیں اور جو ممتا بنرجی کے چاہنے کے باوجود مر کزی حکومت کی سوتیلے پن کے سلوک سے ادھورا رہا ہے۔لیکن اس کے باوجود ممتا بنرجی نے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر اپنے فرائض کو بحسن و خوبی نبھا یا ہے جس سے زیادہ تر لوگ اتفاق بھی کرتے ہیں۔جس میں ایک خاص بات فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی وجہ سے اقلیتیوں کا ممتا بنرجی پر اعتماد ہے۔

ہندوستانی سیاست میں ممتا بنرجی کا نام ان چند اہم لیڈروں میں مانا جاتا ہے جو عوامی سطح پر کافی مقبول ہیں۔ ان کی سادگی،بے باکی اور لیڈر شپ کی صلاحیت کی وجہ سے دنیا بھر میں ایک منفرد اور اہم لیڈر کے طور پر مانا جاتا ہے۔ مئی 2011 کے اسمبلی الیکشن میں پہلی بار ترنمول کانگریس نے کانگریس کے ساتھ مل کر دنیا کی سب سے لمبی حکومت کرنے والی کمیونسٹ پارٹی کو زبردست طریقے سے ہرایا تھا۔ آج مغربی بنگال کی عوام کمیونسٹ حکومت کی دم گھٹتی فضا سے تقریباً نجات پاچکی ہے۔جس کا ثبوت 2021 کے ریاستی الیکشن میں دیکھنے کو ملا جب کمیونسٹ پارٹی کو بمشکل ایک سیٹ ملی۔

ممتا بنرجی کی پارٹی کی جیت کے پیچھے  ایک اہم نام کا چرچام رہا اور وہ نام پرشانت کشور کاہے۔ پرشانت کشور الیکشن حکمت عملی  کے لیے مشہور ہیں۔ انہوں نے اس سے قبل بھی کئی صوبوں میں الیکشن کے لیے مختلف پارٹیوں کی مدد کی ہے۔ دسمبر 2020میں پرشانت کشور نے اپنے ٹوئیٹ کے ذریعہ اس بات کی پیشن گوئی کی تھی کہ بنگال الیکشن میں بی جے پی کو سو سیٹ ملنا مشکل ہے۔پرشانت کشور کی یہ بات بھی درست ثابت ہوئی اور بی جے پی اپنی تمام تر ہتھکنڈے کے باوجود 75سیٹ پر ہی جیت درج کرسکی ہے۔ جو کہ مودی اینڈ ٹیم کے لیے ایک بہت بڑا دھچکہ ہے۔

2021کے بنگال الیکشن میں ایک بات اور اہم تھی وہ یہ کہ ممتا بنرجی کی پارٹی کے چند اہم لیڈروں نے بی جے پی جوائن کر لی تھا۔جن میں نندی گرام کے ایم ایل اے سوبھیندو ادھیکاری کا نام اہم ہے۔ ممتا بنرجی نے بھی اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے نندی گرام سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ جس کے بعد ساری نظریں نندی گرام پر ٹکی ہوئی تھیں۔تاہم سوبھندو ادھیکاری نے 1736 ووٹ سے ممتا بنرجی کو شکست دے دی لیکن اس سے قبل ممتا بنرجی کی جیت کا اعلان ہوا تھا۔ ممتا بنرجی نے کہا ہے کہ وہ کورٹ سے رجوع کریں گی۔

ممتا بنرجی نے پندرہ سال کی عمر سے ہی سیاست میں دلچسپی لینا شروع کر دیا تھا۔ ان کی سیاسی کئیریر کا آغاز جوگ مایا دیوی کالج سے ہوا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے کلکتہ یونیورسٹی سے اسلامک ہسٹری میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے شری شکشا یتن کالج سے ایجوکیشن اور پھر جوگیش چندرا چودھری لا کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کی تھی۔انہیں کلنگا انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹرئیل ٹیکنالوجی سے عزت افزائی کے طور پر ڈی لٹ سے بھی نوازا گیا ہے۔

 2012معروف میگیزین ٹائم نے ممتا بنرجی کو  دنیا کی سب سو سب سے بااثر خواتین میں شامل کیا تھا۔ستمبر 2012میں بلوم برگ مارکیٹ میگزین نے انہیں دنیا کی  فنانس میں بااثر 50 لوگوں کی فہرست میں شامل کیا۔ مئی 2013میں ہندوستان کی سب سے ایماندار سیاستدان ہونے کا خطاب انہیں کرپشن کے خلاف بھارتی تنظیم نے دیا تھا۔

میں نے 2011کے بعد کئی دفعہ کلکتے کا دورہ کیا ہے اور دورانِ سفر میں شہر کی سجاوٹ سے لے کر لا اینڈ آرڈر میں سدھار پایا ہے۔لوگوں سے بات چیت سے یہ پتہ چلا کہ عام آدمی کی پریشانیاں پورے طور پر تو ختم نہیں ہوئی ہیں لیکن وہ پچھلی حکومت کے مقابلے میں ممتا حکومت کے کام  کاج کی سراہنا کر تے ہیں۔اس کے علاوہ اقلیتی طبقہ ممتا حکومت کی سرپرستی میں اپنے آپ کو کافی محفوظ محسوس کررہا ہے جس کی مثال ہم نے لوگوں کی زبانی سنی تھی۔ تاہم پچھلے کچھ برسوں میں ممتا بنرجی کو بدنام کرنے کی بھی سازش رچی گئی ہے جس میں مرکزی حکومت کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ممتا بنرجی کو ہٹانے کے لئے بی جے پی کی حکومت کسی بھی ہتھکنڈے کو استعمال کرنے سے گریز نہیں کررہی ہے۔ چاہے وہ الزام ہو یا فرضی باتیں لیکن ممتا بنرجی نے اپنی دلیرانہ اور منصفانہ سلوک سے ان تمام باتوں کا جواب دے کر بی جے پی کے ناپاک ارادوں پر پانی پھیر دیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ممتا بنرجی کی جیت میں مسلمانوں کے ووٹ نے اہم رول نبھایا ہے۔ حالانکہ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ممتا بنرجی کی پارٹی کو عورتوں کا ووٹ سب سے زیادہ ملا ہے۔ لیکن مسلمانوں نے اس الیکشن میں دیگر پارٹیوں کو اپنا ووٹ نہ دے کرصرف ممتا بنرجی کی پارٹی کو ووٹ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ممتا بنرجی کی پارٹی کو کافی سیٹوں پرکامیابی نصیب ہوئی۔اب ہندوستانی مسلمانوں کے لیے یہ ایک اہم درس ہے کہ وہ بنگال کے مسلمانوں کی طرح کسی ایک پارٹی کو اپنا ووٹ دیں تاکہ بی جے پی جیسی پارٹیاں مذہب کا سہارا لے کر کامیاب نہ ہوں۔

لیکن اب بھی بہت سارے لوگ یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا آنے والے دنوں میں ممتا بنرجی صوبہ کی حالت میں مزید بہتری کریں گی؟ کیا وہ اقلیتی طبقہ کے روزگار، رہائش اور حفاظت پر مزید دھیان دینگی؟ان سارے سوالوں کا جواب ممتا بنرجی کی حکومت کو اپنی محنت اور عمدہ پالیسی کے ذریعہ دینا ہوگا اور اس کی ایک واحد صورت یہ ہے کہ ممتا بنرجی کے وزرا کو ممتا بنرجی کی طرح اپنے اپنے حلقوں میں لوگوں کے ساتھ وقت گزارنا ہوگا۔ تمام ایم ایل اے کو اپنی محنت اور ایمانداری سے اپنے کام کو انجام دینا ہوگا اور ممتا بنرجی کو نااہل وزراکے خلاف کارروائی بھی کرنا ہوگی جو کہ ایک طاقتور لیڈر کی پہچان ہوتی ہے۔

آج ممتا بنرجی ایک کامیاب لیڈر کی طرح ترنمول پارٹی کی قیادت کر رہی ہیں اور ان کی اسی قابلیت کے بنا پر مغربی بنگال کے لوگوں نے ان پر بھروسہ کر کے ایک بار پھر انہیں حکومت بنانے کا موقعہ دیا ہے۔ جس کے لئے ہم انہیں دل کی گہرائیوں سے مبارک باد دیتے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے پانچ سالوں میں ممتا بنرجی اور ان کی ٹیم مغربی بنگال کی عوام کی دشواریوں کو کیسے دور کریں گی۔ صوبے کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو کیسے برقرار رکھیں گی۔ مغربی بنگال کے وقار کو کیسے اونچا کریں گی۔بد عنوانی اور رشوت کا کیسے خاتمہ کریں گی۔

مجھے امید ہے کہ ان تمام سوالوں کا جواب ممتا بنرجی اپنی منصفانہ پالیسی اور ایمانداری کا بھر پور مظاہرہ کر کے  دیں گی۔  اور مغربی بنگال کو ایک بار پھر ایک اعلیٰ اور عمدہ صوبہ بنا کر دکھائیں گی۔ جس کی امید کے بنا پر لوگوں نے انہیں ایک اور موقعہ دیا ہے۔

Leave a Reply