You are currently viewing برلن میں اردو زبان و ادب کے لئے سرگرم احباب

برلن میں اردو زبان و ادب کے لئے سرگرم احباب

پچھلے مہینے معروف افسانہ نگار ، کالم نویس اور شاعر جناب انور ظہیر رہبر جب برلن سے اپنی نئی کتاب ’ عکسِ آواز‘ کے اجرا کے موقع پرلندن
تشریف لائے تو انہوں نے ’اردوانجمن‘ کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی ۔ میں نے بھائی انور کی دعوت قبول تو کر لی لیکن دفتر کی مصروفیت اور اور پروگرام کی تفصیل نہ ملنے پر برلن جانے کی بات بھول گیا۔ تاہم بھائی انور ظہیر نے ٹھان لی تھی کہ وہ مجھے اس خاص تقریب میں بلا کر ہی رہیں گے۔ چند ہفتے قبل انور ظہیر کا دوبارہ پیغام آیا اور انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں مجھے برلن کے پروگرام ’جشنِ عارف‘ میں شرکت کرنے پر آمادہ کرلیا۔
30؍ مارچ کی صبح چھ بجے تیار ہو کر کو لندن کے(Gatwick Airport) گیٹوِک ائیر پورٹ کی طرف چل پڑا۔ مجھے صبح آٹھ بجے کی فلائٹ سے جرمنی کی راجدھانی برلن جانا تھا۔ گیٹوِک ائیر پورٹ لندن کے پانچ ائیر پورٹ میں سے ایک ہے۔ جہاں سے لاکھوں مسافر دنیا بھر کے لئے سفر کرتے ہیں۔ میرا جہاز (Easy Jet)ایزی جیٹ تیار تھا اور سیکورٹی چیک وغیرہ کے بعد میں جہاز پر وقت کے مطابق سوار ہو گیا۔ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد ہمارا جہاز برلن کے شونے فیلڈ ائیرپورٹ پر اتر گیا۔ ائیر پورٹ کافی پرانا دِکھ رہا تھا ۔ مجھے بھائی انور ظہیر نے بتایا کہ شونے فیلڈ کے قریب ہی ایک نیا ائیر پورٹ بنایا گیا ہے لیکن پچھلے کئی سال سے عمارت میں سیکورٹی انتظامات کی وجہ سے اب تک معاملہ اٹکا ہوا ہے۔ اپنا چھوٹا سا بیگ اٹھائے جیسے ہی ائیر پورٹ سے باہر نکلا تو سامنے بھائی انور ظہیر اور ان کی بیگم عشرت معین سیما میرے استقبال کے لئے کھڑے تھے۔ کچھ رسمی گفتگو کے بعد ہم سب بھائی انور کی گاڑی کی طرف چل دئے۔
انورظہیر اپنے چھوٹے سے کنبے کے ساتھ ایک خوبصورت مکان میں رہتے ہیں۔ اس مکان میں انور ظہیر کے علاوہ محترمہ عشرت سیما معین کی بھی ایک پہچان ہے۔ عشرت معین سیما معروف ادیبہ اور شاعرہ ہیں اور ایک نیک خاتون ہونے کے ساتھ ایک ذمہ دار ماں بھی ہیں۔ جرمنی میں رہ کر بچوں کو اردو پڑھانے اور اس کی فروغ کے لئے ہمیشہ سر گرم رہتی ہیں۔ عشرت معین سیما کو خاندان سے ملی تربیت اور خوش مزاجی نے مہمانوں کی خاطر کرنے کا عمدہ مزاج دے رکھا ہے۔
شام کو بھائی انور ظہیر رہبر اور سرور غزالی کی دعوت پر مجھے برلن کے معروف ریستوران میں دعوت دی گئی۔ ہندوستانی کھانے کے اس ریستوران میں جرمن لوگوں کی بھیڑ سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ ہندوستانی کھانے دنیا کے ہر حصے میں مقبول ہیں۔ ہم سب خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ جناب عارف نقوی تشریف لے آئے۔ چہرے کی مسکراہٹ سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ انہیں میری برلن آمد سے کافی خوشی ہوئی ہے۔پھر ہم نے اس موقع سے فائدہ اٹھا تے ہوئے عارف نقوی صاحب سے گفتگو کی اور یادوں کے جھروکے سے ان باتوں کو جاننے کی کوشش کی جو میں نے اب تک کتابوں میں ہی پڑھی تھیں ۔
2017 مجھے پہلی بار جرمنی کی راجدھانی برلن جانے کا اتفاق ہواتھا۔ سرور غزالی کی دعوت پر بزمِ ادب برلن کی ادبی نشست میں بطورِ افسانہ نگار مجھے ایک کہانی پڑھنی تھی۔ اس کے بعد 2018 میں دوبارہ برلن جانے کا اتفاق ہوا جہاں میری ملاقات عارف نقوی صاحب سے ہوئی۔یوں تو عارف نقوی سے میرا غائبانہ تعارف ایک عرصے سے تھا۔ ان کی تحریروں اور شاعری سے میں اچھی طرح واقف تھا۔ کئی بار ہندوستان کے دورے کے متعلق ان کی رپورٹ کو بھی پڑھتا رہا ، جس سے ان کی سرگرمیوں کا علم ہوتا رہا۔
عارف نقوی ہندوستان کے معروف شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ لکھنؤ سے ہی آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اور اس کے بعد لکھنؤ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔آپ ترقی پسند تحریک سے بھی وابستہ رہے۔عارف نقوی کا تعلق ہندوستان سے ہے اور ایک عرصے سے جرمنی میں رہنے کے با وجود وہ ہندوستان کو نہیں بھلا پائے ہیں۔ اسی لئے اکثر و بیشتر وہ ہندوستان کی سماجی، سیاسی اور ادبی امور پر تبادلۂ خیال کرتے رہتے ہیں۔عارف نقوی کی شہرت اور مقام اردو ادب کے حوالے سے پوری دنیا میں ہے۔
عارف نقوی نے یورپ اور خاص کر جرمنی میں اردو زبان کی بے پناہ خدمت کی ہے جس کا اعتراف نئی نسل کے لکھنے پڑھنے والوں نے بھی کیا ہے۔خاص کر میں معروف افسانہ نگار اور شاعر انور ظہیر رہبر کا نام لینا ضروری سمجھتا ہوں جنہوں نے ہر محفل اور موقع پر اس کا اعتراف کیا۔عارف نقوی نے درس وتدریس اور صحافت میں اپنا قیمتی وقت صرف کیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جرمنی میں اردو ادب کی کئی نئی بستیاں فروغ پانے لگی ہیں۔اس کی سب سے اہم مثال’ اردو انجمن برلن ‘ہے جو جرمنی، یورپ اور عالمی سطح پر اردو کے لیے خدمات انجام دے رہی ہے۔عارف نقوی نے برلن کے ہمبولٹ یونیورسٹی میں لگ بھگ چالیس سال تک درس و تدریس کی خدمات انجام دیں۔ ان کی سرپرستی میں ہزاروں طلبا و طالبات اردو زبان سے فیضیاب ہو کر یورپ اور کئی ممالک میں اردو کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں۔
اتوار31 مارچ کو شام چار بجے ’جشنِ عارف ‘ کا آغاز ہوا۔ جس کی تیاری میں انور ظہیر نے کوئی کسر نہیں چھوڑ رکھی تھی۔ اس پروگرام کے نظامت کی ایک خاص بات یہ تھی کہ انور ظہیر کی اردو زبان کے ساتھ ساتھ ان کی چھوٹی صاحب زادی مایا نے جرمن زبان میں نظامت کی۔ جس سے ہال میں موجود جرمن سامعین محظوظ ہوئے۔اس کے علاوہ عارف نقوی صاحب کی زندگی پر ایک مختصر فلم بھی دکھائی گئی ۔حاضرین محفل کو ایک فلم دکھا کر شہر لکھئنو کی سیر بھی کرائی گئی ۔یاد رہے شہر لکھئنو عارف نقوی کی جائے پیدائش ہے۔ پروگرام میں لکھئنو اور ممبئی کی مشہور شخصیات کے ویڈیو پیغامات بھی دکھائے گئے جو انہوں نے جشن عارف کی مناسبت سے بھیجے تھے۔
اس موقعہ پر پروفیسر اسلم جمشید پوری کی لکھی ہوئی کتاب’ آسمان ادب کا ستارہ عارف نقوی‘ کا اجرا ء میرے ہا تھوں انجام پایا ۔ اس کتاب کو پروفیسر اسلم جمشید پوری نے خوبصورتی سے ترتیب دیاہے۔ پروفیسر اسلم جمشید پوری کی یہ کتاب عارف نقوی صاحب کی زندگی کی عکاسی کے ساتھ ساتھ معلومات بھی بہم پہنچا رہی ہے۔ کتاب کے اجرا کے بعد مشاعرے کا بھی اہتمام کیا گیا ۔ جس کی نظامت معروف شاعرہ مایا حیدر نے بحسنِ خوبی انجام دی۔ مشاعرے سے قبل عارف نقوی کے لئے ایک خوبصورت پچاسویں سالگرہ منانے کے لئے کیک بھی اسٹیج پر لایا گیا۔ کیک کے اوپری سطح پر عارف نقوی صاحب کی تصویر بنی ہوئی تھی جسے جناب عارف نقوی بمشکل کاٹنے پر تیار ہوئے۔
برلن کی سردی کو اردو کے شیدائیوں نظر انداز کرتے رہے اورجی بھر کے پورے پروگرام سے لطف اندوز ہوئے ۔ رات آٹھ بجے پروگرام اپنے اختتام کو پہنچا اور مہمان دھیرے دھیرے اپنی منزل کی طرف خوش و خرم روانہ ہوگئے۔ ہمیں جناب ظہور کی دعوت پر زم زم ریستوران میں کھانے کے لئے مدعو کیا گیا۔
سوموار پہلی اپریل کی صبح پانچ بجے انور ظہیر نے ہمیں شونے فیلڈ ائیر پورٹ چھوڑ ا اور ہم اپنا اداس دل لئے جہاز پر سوار ہو کر لندن واپس آگئے۔ راستے بھر برلن کے اردو شیدائیوں کی محبت اور مہمان نوازی کویاد کرتا رہا ۔ پورے سفر میں برلن اور وہاں کے اردو دوست کی ملاقات نے برلن کو بھی اپنا ہی شہر ماننے پر مجبور کر دیا ۔
میں اردو کی خدمت اور اس کی بقا کے لئے کام کرنے والے جرمنی کے تمام دوستوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں ۔ جنہوں نے جرمنی میں اردو زبان کو اپنے سینے سے لگا رکھا ہے۔ میں برلن کے اس تاریخی تقریب اور سفر کو کبھی نہیں بھلا پاؤں گا جہاں میں نے کئی رشتوں کو مزید پختہ کیا تو وہیں لندن اور برلن کے مابین اردو دوستی کی ایک نئے باب کا آغاز بھی ہوا ۔

Leave a Reply