You are currently viewing برطانیہ کا تاریخی عام انتخاب

برطانیہ کا تاریخی عام انتخاب

جمعرات 12دسمبر کو برطایہ کا تاریخی عام انتخاب ہوا جس میں بورِس جونسن کی قیادت میں کنزرویٹویو پارٹی نے شاندار جیت حاصل کی۔ یہ 1923کے بعد پہلی بار برطانیہ  میں  عام انتخاب دسمبر میں کروایا گیا۔

یہ  انتخاب گزشتہ  الیکشن سے  ڈھائی سال بعد کروایا گیا جس کی وجہ سے اسے ایک تاریخی عام انتخاب کہا جارہا ہے۔برطانیہ کے  انتخاب میں حسبِ روایت ملک کی تعلیم، صحت، روزگار،آب و ہوااور امیگریشن ہی اہم مدعے ہوتے ہیں۔ تاہم اس الیکشن میں بریکسٹ ہی تمام  مسائل  پر حاوی رہا۔ بریکسِٹ کے ریفرنڈم کے بعد سے برطانیہ کے لوگوں میں کافی مایوسی پائی جارہی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو پچھلے کچھ برسوں سے برطانوی سیاست میں ایک بھونچال سا آیا ہوا ہے۔

 بورِس جونسن نے حیرت انگیز طور پر (Conservative Party)کنزرویٹو پارٹی کے لئے شاندار جیت حاصل کی ہے اور لوگوں کو سکتے میں ڈال دیا ہے۔یہ عام انتخاب کئی معنوں میں دلچسپ اور اہم مانا جارہا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران طرح طرح کی قیاس آرائیاں  کی جارہی تھیں اور ا یکزِٹ پول کے مطابق کنزرویٹو پارٹی کو اکثریت پاتے ہوئے بتا یا جا رہا تھا۔ رات دس بجے پولنگ ختم ہوتے ہی بی بی سی کے ایکزِٹ پول میں کنزرویٹو پارٹی کو 364 سیٹ جیتنے کی بات کہی گئی جو کہ بالکل سچ ثابت ہوئی۔  اور کنزرویٹو پارٹی نے 365سیٹ جیت کر بی بی سی کے ایکزٹ پول کی لاج رکھ لی۔

کنزرویٹونے 650سیٹ میں 365سیٹ پر قبضہ جمایا جبکہ حکومت بنانے کے لئے 326 ایم پی کی ضرورت تھی۔  1992 کے بعد کنزرویٹو پارٹی  اکیلے اور اپنے بل بوتے پر  حکومت بنائے گی۔  جب کہ پچھلی حکومت میں  ناردین آئیرلینڈ کی مقامی ڈی یو پی پارٹی کی مدد سے حکومت بنانی پڑی تھی۔ بورِس جونسن نے اپنی حکومت سازی کا کام شروع کردیا ہے۔ بورِس جونسن جولائی میں  برطانیہ کے نئے وزیر اعظم بنے تھے۔ اس سے کسی کو نہ حیرانی ہوئی اور نہ ہی پریشانی ہوئی تھی۔ کیونکہ جب سے سابق وزیراعظم تھریسا مے نے وزیراعظم کا عہدہ چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا تبھی سے چند ناموں میں بورِس جونسن کا نام سر فہرست تھا۔دراصل اس وقت بورِس جونسن منتخب نہیں ہوئے تھے بلکہ یوں کہا جائے کہ انہیں نامزد کیا گیا تھا تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ وزیر اعظم بننے کے بعد بورِس جونسن کو مسلسل پارلیمنٹ میں منہ کی کھانی پڑ رہی تھی۔ وہ 31 اکتوبر کو بریکسٹ کروانا چاہتے تھے لیکن پارلیمنٹ نے انہیں ایسا کرنے  میں رکاٹیں ڈال رکھی تھیں۔ جس سے عاجز آکر بورس جونسن نے پارلیمنٹ میں ایک بل لا کر اچانک12 دسمبر کوعام انتخاب کرانے کا فیصلہ کیا۔

وزیر اعظم بورِس جونسن نے کہا ہے کہ جب برطانیہ کے لوگوں نے یورپ سے باہر ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے تو ہمیں ان کے فیصلے کا احترام کرنا چاہئے۔ انہوں نے مزید یہ بھی کہا کہ Article 50 جو کہ یورپین یونین چھوڑنے کی ایک اہم  شق ہے، اس کے تحت 31 جنوری

2020سے ان کی حکومت یورپین یونین سے  علیحدہ ہونے کا کام کرنا شروع کر دے گی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ برطانیہ ایک ملک کے نعرے سے ہم نے اپنی الیکشن مہم کا اعلان کیا تھا اور ہم برطانیہ کو ایک نیا اور آزاد ملک بنا کر لوگوں کا خواب پورا کریں گے۔

بورِس جونسن کے وزیر اعظم بننے سے لوگوں میں ریفرنڈم کے بعد جو مایوسی کی لہر دوڑ گئی تھی اس میں کچھ حد تک کمی ہوئی ہے۔ لیکن اب بھی لوگوں کا اعتماد بحال نہیں ہوا ہے۔ تاہم لوگوں میں اس بات کی امید پیدا ہوئی ہے کہ اب برطانیہ یوروپین یونین سے باہر ہوجائے گا اور ایک نئے باب کا آغاز ہوگا۔

 لیبر پارٹی کی شرمناک شکست سے اس کے حامیوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ لیبر پارٹی کی یہ چوتھی لگاتار ہار ہے جبکہ 1935 کے بعد لیبر پارٹی کی یہ بد ترین ہار ہے۔ اس کے لیڈر جریمی کوبن نے کہا ہے کہ’میں ابھی پارٹی کے لیڈر شپ سے استعفیٰ نہیں دوں گا تاہم اگلے الیکشن میں وہ پارٹی کی نمائندگی بھی نہیں کریں گے۔ میں نے اپنے طور پر پوری کوشش کی جو کرنا چاہیے تھی‘۔ لیبر پارٹی کو 203سیٹیں  ملی ہیں جب کہ پچھلے عام انتخاب میں پارٹی  262 سیٹ پر کامیاب ہوئی تھی۔

سب سے حیرانی والی بات لیبرل ڈیموکریٹ پارٹی کی لیڈر جو سوئینسن کے ساتھ ہوئی جو اپنا الیکشن ہار گئی۔لیبرل ڈیموکریٹ نے اس انتخاب میں بھی کوئی خاص کارنامہ انجام نہیں دیا اور پارٹی کو صرف 11 سیٹ پر ہی جیت حاصل ہوئی ہے۔  جو 1980 میں پارٹی کے قیام کے بعد بہت بڑا دھچکا ہے۔جو سوئینسن نے فوراً اپنا استعفیٰ نامہ پیش کر دیا ہے اور کہا کہ یہ ایک بہت دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ ان کی پارٹی کو ان کی وجہ سے اتنی بھاری شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

مجھے برطانیہ کے سیاسی لیڈروں کی ایک بات پسند آتی ہے کہ جب وہ اپنی مہم میں ناکام ہوتے ہیں تو وہ بلا جھجھک اپنا استعفیٰ دے دیتے ہیں اور اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اس عہدے سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔ جس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے وقار کو بلند رکھتے ہوئے اخلاقی بنا پر اپنا استعفیٰ دیتے ہیں جو کہ ملک کے لئے ایک قابلِ ستائش بات ہے۔اسکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر (Nicola Sturgeon) نکولا اسٹر جیون کی اسکاٹش نیشنل پارٹی کو شاندار کامیابی نصیب ہوئی اور ان کی پارٹی نے 48 سیٹوں پرجیت درج کی ہے۔ جو کہ پچھلے عام انتخاب سے 13سیٹ زیادہ ہیں۔ اسکاٹش نیشنل پارٹی بریکسٹ کی مخالفت کر رہی ہے اور برطانیہ سے علیحدگی کی بھی مانگ کر رہی ہے۔جو کہ بورِس جونسن کے دوبارہ وزیر اعظم بننے سے ناممکن لگ رہا ہے۔

بورِس جونسن نے الیکشن سے قبل لوگوں کو اس بات کا یقین دلایا ہے کہ و برطانیہ کی مستقبل کو بدل ڈالیں گے۔ بورِس جونسن کی پچھلی حکومت چونکہ مخلوط تھی اور وہ بہت ساری پالیسی پر عمل درآمد نہیں کر پائے تھے جو کہ اب بورِس جونسن کے لئے آسان ہوگیا ہے۔  اور اب وہ ہر ممکن کو شش کریں گے کہ  ان کی پالیسیوں پر جلد از جلد عمل  ہو۔ جس سے زیادہ تر لوگوں کو خوف بھی ہے کہ اس سے وہ لوگ متاثر ہوں گے جو کسی وجہ سے فلاح و بہبود کے سسٹم کے تحت اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ جن میں سنگل مدرز بھی شامل ہیں۔  اس کے علاوہ صحت کا شعبہ بھی اثر انداز ہوسکتا ہے جہاں علاج اب تک مفت  ہے۔نیشنل ہیلتھ سروس(NHS-National Health Service)جو پچھلے کئی برسوں سے خسارے میں چل رہی ہے اور ماہرین اس میں تبدیلی لانے کی بات کر رہے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ بوڑھوں کی آبادی اور کم بجٹ کی وجہ سے NHS) (این ایچ ایس کی سروس پر بُرا اثر پڑ رہا ہے۔

برطانیہ کے اس الیکشن کے نتیجے سے جہاں ایک طبقہ مطمئن ہے تو وہیں ایک طبقہ بہت فکر مند بھی ہے۔کنزرویٹو پارٹی پچھلے کئی سالوں سے اس بات پر زور دے رہی ہے کہ کیسے بجٹ میں کمی کی جائے اور ملک کی معاشی حالت کو سدھارا جائے تو وہیں لوگوں میں گرتی ہوئی برٹش قدر کی اورآنے والے دنوں میں اس کے اثرات سے بھی بے چینی ہے۔ریفرنڈم کے بعد جہاں برطانیہ کے ان لوگوں کو خوشی ہوئی کہ ان کا ملک یورپ سے آزاد ہوگیا ہے تو وہیں بہت سارے لوگوں میں ایک مایوسی اور پریشانی بھی ہے کہ آنے والے دنوں میں برطانیہ کو  کس صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔

 ماہرین کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی معاشی صورتِ حال اور بد تر ہوگی تو وہیں اس بات کا بھی قیاس کیاجا رہا ہے کہ آنے والی نسلیں اس ریفرنڈم  کا خمیازہ  بھگتے گی۔اب جو کچھ بھی ہو فی الحال برطانیہ کو ایک اکثریت والی حکومت اور یورپین یونین مخالف وزیر اعظم بورِس جونسن مل گیا ہے جس سے یورپین یونین مخالف لوگوں میں اعتماد بحال ہوا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا برطانیہ واقع معاشی طور پر زوال پزیر ہو جائیگا یا سیاستدان کوئی ایسی حکمت عملی بنائیں گے  تا کہ آنے والے دنوں میں برطانیہ ایک بار پھر اپنی شان اور آن کا جھنڈا بلند کر کے دنیا میں اپنی ترقی، رواداری، مساوات،انسانی حقوق اور فلاح و بہبود کا ایک منفرد پہچان بنائے رکھے گا۔

Leave a Reply