برطانیہ میں شدید برفباری نے مشکلات میں اضافہ کیا

کسی بھی چیز کی زیادتی سے انسان یا تو گھبرا جاتا ہے یا پھر پریشان ہوجاتا ہے۔ چاہے وہ مادّی ہو یا قدرتی۔ گویا زیادتی کسی چیز کا ہونا پریشانی کا باعث بن ہی جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بے طرح انسانی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ انسان گھبرا کر اپنے رب کو یاد کرنے لگتا ہے۔ دنیا جب سے قائم ہوئی ہے قدرتی آفتوں کا سلسلہ کبھی بھی تھما نہیں ہے۔ چاہے وہ سمندر ہو، زمین ہو یا ریگستان جب بھی طوفان آیا یا برفباری ہوئی یا برسات ہوئی انسان کچھ پل کے لئے سہم سا جاتا ہے۔

لیکن پچھلے کچھ برسوں سے دنیا کی آب و ہوا اور درجہ حرارت میں جس طرح سے تبدیلی ہو رہی ہے اس سے سائنسداں کافی فکر و مند ہیں۔ سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ دنیا کی موسم کے عدم توازن کے ذمّہ دار خود ہم انسان ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کی چند ممالک اس مسئلہ کے خاص ذمّہ دار ہیں۔ اس حوالے سے پچھلے سال پیرس میں عالمی کلائمیٹ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا جس میں دنیا کے چھوٹے بڑے ممالک نے شرکت کی تھی اور سبھوں نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ دنیا کی آب و ہوا کو بہتر اور متوازن بنانے کے لئے مل جل کر کام کریں گے۔ لیکن بدقسمتی سے امریکی صدر کی ہٹ دھرمی اور ضد نے اس معاہدے کو کچھ حد تک کمزور کردیا ہے۔ تاہم اب بھی زیادہ تر ممالک دنیا کی آب و ہوا کو بہتر اور متوازن بنانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنے کا عہد کیا ہے۔

برطانیہ کے چاروں طرف سمندر ہیں اور یہاں تقریباً پورے سال سردی کا موسم رہتا ہے۔ موسمِ سرما میں سورج رات کے 9:25 پر غروب ہوتا ہے لیکن ایسی گرمی نہیں پڑتی ہے کہ انسان کا جینا دو بھر ہو جائے۔ البتہ چند دن ایسے ہوتے ہیں جب درجہ حرارت 30 ڈگری سیلسیس پہنچ جاتا ہے اور لوگ مارے خوشی کے سمندر کنارے جا کر موسمِ گرما سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ لیکن 27فروری سے پورے برطانیہ میں زبردست برفباری ہوئی۔ جس کی وجہ سے ہزاروں اسکولوں کو بند کرنا پڑا اور ایمرجنسی سروس کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی لوگوں نے دفتر جانے سے معذرت کرلی تو وہیں کئی لوگ بڑی مشکلوں سے دفتر پہنچے۔ برفباری اس قدر شدّت سے ہوئی کہ حکومت کو کئی علاقوں میں فوج کو بھیجنا پڑا۔ برطانیہ کے کئی علاقوں میں برفباری کی سطح کو 50cm پچاس سینٹی میٹر ناپا گیا۔ جس کی وجہ سے غیر معمولی طور پر جنوب مغرب انگلینڈ اور جنوب ویلز کے علاقوں میں ریڈ الرٹ جاری کئے گئے جو کہ ایک تشویش ناک بات تھی۔

برطانیہ کی سڑکیں ، ریلوے اور ائیر پورٹ کو زبردست برفباری کی وجہ سے بند کرنا پڑا۔ ہزاروں ڈرائیور زبردست برفباری کی وجہ سے بیس گھنٹے اپنی گاڑی میں پھنس کر رہ گئے۔ مقامی لوگوں اور کاروباریوں نے اپنی جانب سے گاڑیوں میں پھنسے لوگوں کو کھانے پینے کی چیزوں کے علاوہ کمبل وغیرہ فراہم کئے۔ جو کہ ایک قابلِ ستائش بات مانی جا رہی ہے۔ تاہم حکومت نے ملٹری کو لوگوں کی مدد کے لئے بھی بھیجا۔ برطانیہ کے کئی علاقوں میں میڈیکل اسٹاف کو کام پر پہنچانے کے لئے بڑی گاڑی کے مالکوں سے اپیل کی گئی کہ وہ اپنی گاڑی کے ذریعہ ان لوگوں کو ہسپتال یا دیگر جگہوں پر پہچانے میں مدد فراہم کریں۔ بڑی تعداد میں جن لوگوں کے پاس بڑی گاڑیاں تھیں انہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں اس کام کو بحسن و خوبی انجام دیا۔ تاہم برفباری کی شدّت سے بہت سارے لوگوں کی جان بھی چلی گئی۔ ایک سات سالہ بچّی کی جان اس وقت چلی گئی جب ایک گاڑی نے برفباری کی وجہ سے اپنا کنٹرول کھو دیا اور قریب ہی ایک مکان میں ٹکّر مار دی۔ لیڈس شہر میں بھی ایک خاتون کی لاش فٹ پاتھ پر پائی گئی۔ جبکہ جنوب میں ایک شخص کی موت اس وقت ہوئی جب وہ اپنی گاڑی چلاتے ہوئے اپنا کنٹرول کھو دیا اور سامنے جاتی ہوئی لاری میں ٹکّر مار دی۔ ڈرہم کے علاقے میں ایک حاملہ عورت ہسپتال نہ پہنچنے کی وجہ سے گاڑی میں ہی اپنے بچّے کو جنم دیا۔

شدّت کی برفباری سے ہزاروں گھروں میں الیکٹرک سٹی کا بھی بحران پایا گیا۔ لوگوں کو کئی دنوں تک الیکٹرک سٹی کے بنا اپنے گھروں میں کافی تکالیف سے دن گزارنے پڑے۔ اس کے علاوہ سردی کی شدّت سے پانی کی سپلائی پر بھی برا اثر پڑا اور درجہ حرارت کے گر جانے سے کئی شہروں میں پانی کی سپلائی کے پائپ منجمد ہوگئے۔ جس کی وجہ سے لوگوں کو پانی پینے اور دیگر ضروریات کے استعمال میں کافی دشواری ہوئی۔ زبردست برفباری کا اثر معیشت پر بھی پڑا۔ ایک رپورٹ کے مطابق ایک ہفتے کی برفباری سے برطانیہ کی معیشت کو ایک بلین پونڈ ایک دن کا نقصان ہو اہے۔ معروف اخبار(Observor) اوبزرور نے اپنے ہیڈ لائن میں یہاں تک لکھ دیا کہ برطانیہ کو منجمد سردی سے ہر روز ایک بلین کا نقصان ہو رہا ہے۔ زیادہ تر دکانیں یا تو کھلی نہیں یا پھر گاہکوں کو نہیں دیکھا گیا۔ منجمد سردی اور زبردست کئی روز کی برفباری سے زیادہ تر لوگ اپنے گھروں میں سمٹ کر رہ گئے تھے۔  سردی اور برفباری سے ضعیف اور بیمار لوگوں کو بھی کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ برطانیہ میں اولڈ پیپل ہوم کا ایک عام چلن ہے۔ یوں تو اب بھی زیادہ تر ضعیف لوگ اپنے گھروں میں رہنا پسند کرتے ہیں۔ لیکن بہت سارے ضعیف مرد اور وعورتیں ایسی ہیں جو یا تو صحت کی خرابی یا تنہائی کی وجہ سے اولڈ پیپل ہوم میں بحالتِ مجبوری چلے جاتے ہیں۔ انہیں بھی برفباری سے کافی دقتّوں کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم مقامی کونسل نے ان لوگوں کے لئے مزید سہولیات فراہم کیں۔ جو ضعیف اپنے گھروں میں پھنس گئے تھے ان کے لئے کونسل نے اپنے اسٹاف کے ذریعہ ان کی دیکھ بھال اور کھانا وغیرہ فراہم کیا ۔

میں بھی لندن کی زبردست برفباری میں اپنے ہسپتال کی اہم نوکری پر بنا ناغہ حاضر ہوتا رہا۔ ٹرین ملتوی ہونے کی وجہ سے بہت سارے اسٹاف کے لئے ہسپتال نے رہائش کا بندوبست کیا۔ اس دوران مجھے برفباری میں گاڑی چلاتے ہوئے کافی خوف کا احساس ہوا اور اس بات کا احساس بھی ہوا کہ لوگوں کو کتنی دشواریاں ہو رہی ہیں۔
ویسے بھی قدرت کے مزاج کا کس کو علم ہوتا ہے۔ کہیں گرمی کی شدّت تو کہیں سردی کی مار ۔ لیکن انسان اس سے لڑنے کے لئے ہمیشہ تیار بھی رہتا ہے۔ برطانیہ میں ایک ہفتے کی برفباری سے زندگی کچھ پل کے لئے دھیمی ضرور ہوگئی تھی لیکن تھم نہ سکی ۔ شاید اس کی ایک وجہ انگریز قوم کی دیانتداری ہے۔ جو اپنے ملک سے بے پناہ پیار کرتے ہیں۔ تبھی تو وہ منجمد سردی اور شدید برفباری کی پرواہ کئے بغیر اپنے اپنے کام میں جٹے ہوئے تھے۔ جس کی وجہ سے ملک کا نظام مکمّل طور پر درہم و برہم نہ ہو سکا۔ جو کہ ایک ترقّی یافتہ قوم کی پہچان ہے۔

Leave a Reply