You are currently viewing برطانیہ میں اسلام

برطانیہ میں اسلام

کافی لوگوں نے  خواہش کی ہے کہ برطانیہ میں اسلام کے بارے میں کچھ لکھا جائے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اسلام اور برطانیہ کی تاریخ کافی طویل ہے جس کی پوری تفصیل اس معمولی کالم میں بیان کرنا دشوار ہے۔

تاہم میں نے ہر ممکن کوشش کی ہے کہ آپ لوگوں کی کسی فرمائش کو نظر انداز نہ کروں۔ اسی حوالے سے آج میں نے مختصر طور پر ’برطانیہ میں اسلام‘ پر یہ کالم لکھا ہے۔ جس کا مجھے یقین ہے کہ آپ کو پسند آئے گا۔ انگلینڈ کی سب سے پہلی رجسٹرڈ مسجد جس کی بنیاد 1889 میں لیورپول میں رکھی گئی تھی اور جو پچھلے کئی برسوں سے متروکہ عمارت کی شکل میں کھڑا تھا جس کو دوبارہ تجدیدشدہ کر کے اسے اب 20000مسلمانوں کے لئے کھول دیا گیا ہے۔ لیور پول مسلم انسٹی ٹیوٹ سب سے پہلی رجسٹرڈ مسجد ہے جسے کرسمس کے دن 1889  میں کھولا گیا تھا۔ اسی سال ووکنگ میں سب سے پہلی مسجد کی تعمیر کا کام شروع ہوا تھا جسے شاہجہاں مسجد کہتے ہیں اور جسے ڈاکٹر گوٹلیب ویلیم لیٹینر نے بنوایا تھا۔

ایک  مکان جس کی کھڑکیاں ٹوٹی ہوئی تھی اور جس کے رنگ و روغن دیواروں سے غائب ہوچکے تھے۔ اس عمارت کی خستہ حالت کو دیکھ کر یہ اندازہ نہیں لگایا جارہا تھا کہ اس کی اہمیت کیا ہے اور آ خر اس عمارت کوکس نے اور کس مقصد کے لئے بنائی تھی۔ لیکن اب اس کی تزئین اور آرائش کر دی گئی ہے او ر اب یہ عمارت برطانیہ میں اسلام کی جائے پیدائش کی پہچان ہے۔ آئیے اب آپ کو بتا تے ہیں کہ اس عمارت کے پیچھے کس انسان کا ہاتھ ہے۔ یہ عمارت کسی زمانے میں عبداللہ قیلم کی جائداد تھی جنہوں نے 1889 میں لیورپول مسلم انسٹی ٹیوٹ کے نام سے اس کی بنیاد رکھی تھی۔ ایک ممتاز انگریز وکیل جن کی ابتدائی تعلیمآئل آف مین میں ہوئی تھی۔ یہ ایک میتھوڈسٹ پادری ولیم ہنری قیلم کے بیٹے تھے جنہوں نے اسلام قبول کر کے اپنا نام عبداللہ قیلم رکھ لیاتھا او روہ اس بات کا دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ وہ پہلے انگریز ہیں جنہوں نے برطانیہ میں اسلام قبول کیا تھا۔

ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قیلم وہ پہلے  مسلم تھے جنہوں نے اخباروں کے ذریعہ تعصب کے خلاف جنگ لڑی تھی۔عبداللہ قیلم کے بارے میں یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ انہوں نے اسلام قبول کر کے کتنی دشواریاں جھیلی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کا یہ اقدام مراکش کے سفر کے بعد ہوا تھا۔جب وہ انگلینڈ واپس آرہے تھے تو انہوں نے راستے میں چند حاجیوں کو نماز پڑھتے دیکھا اور انہیں یہ حیرت ہوئی کہ یہ کتنے سکون سے عبادت کر رہے تھے۔ اسی وقت ایک مسلم ساتھی نے عبداللہ قیلم کو بتایا کہ اسلام پچھلے مذاہب عیسائی اور یہودی کا تسلسل ہے۔ اس کے بعد عبداللہ قیلم کو یہ بات منطقی لگی اور انہوں نے اسی وقت اسلام قبول کر لیا۔لیکن اس کے علاوہ عبداللہ قیلم کو اسلام  کے بارے میں مزید جو باتیں پسند آئیں وہ یہ تھیں کہ لوگوں کی سادگی،اخلاقیات،یکجہتی کا ماحول، امیر اور غریب کا کوئی فرق نہیں،اور ان ہی خوبیوں نے عبداللہ قیلم کو اسلام قبول کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔

جب عبداللہ قیلم انگلینڈ واپس لوٹ کر آئے تو انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ برطانیہ میں اسلام مذہب کی فروغ کریں گے جبکہ اس وقت اسلام کو برطانیہ میں ’شیطانی مذہب‘سمجھا جاتا تھا۔ یہ ان کا ایک بہت ہی دلیرانہ قدم تھا جو کہ اس وقت ناممکن تھا۔ انہوں نے لیور پول مسلم انسٹی ٹیوٹ میں لوگوں کی سہولیت کے لئے یتیم خانے،کالج،مدرسہ ہوٹل، میوزیم اور لائبریری کا بندوبست کیا تھا۔ عبداللہ قیلم نے دو سو مقامی انگریزوں کو اسلام قبول کروایا اور پورے برطانیہ میں چھ سو لوگوں کو اسلام قبول کروایا تھا۔ اس دوران انہوں نے ’اسلام ایک شیطانی مذہب ہے‘  جیسے غلط فہمی کو لوگوں سے دور کیا اوران کو اسلام کی خصوصیات بتانا شروع کیا۔

چونکہ عبداللہ قیلم کی مقبولیت بڑھ رہی تھی اور عیسائی اسلام قبول کر رہے تھے جس کی وجہ سے ان کے خلاف دشمنی کافی بڑھ گئی تھی۔ کئی بار لوگوں نے ان کے خلاف غصہّ میں اس عمارت میں سور کا سر، پتھر اور دھار والے تار پھینک جاتے تھے۔ ان کے خلاف پادری لوگوں کو بھڑکاتے تھے اور میڈیا بھی لوگوں میں ان کے خلاف زہر اگل رہا تھا۔ لیکن عبداللہ قیلم اپنے مقصد پر اڑے رہیں۔وہ اس کا جواب میڈیا کے ذریعہ دیتے تھے۔وہ مسلمانوں کواس کے خلاف لکھنے اور بولنے کے لئے حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ انہوں نے ملکہ وکٹوریہ سے بھی اس بات کی شکایت کی تھی اور دنیا میں اسلام کے خلاف نفرت کے متعلق حزب اختلاف کا بھی اظہار کیا تھا۔

 وہ ایک  صاف گو  ذمہ دار شہری تھے اور اپنے خیالات کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے ہمیشہ اخباروں میں لکھا کرتے تھے۔ انہوں نے تین جلدوں میں  مسلم عقیدہ پر کتاب لکھی جس کا تیرہ زبانوں میں ترجمہ  ہؤا۔ان کی کتاب اتنی مقبول ہوئی تھی کہ ملکہ وکٹوریہ نے بھی اس کتاب کو منگوایا تھا اور ملکہ وکٹوریہ نے دوبار ہ اس کتاب کو منگوا کر اپنے پوتے پوتیوں کو بھی پڑھنے کی تاکید کی تھی۔ عبداللہ قیلم کو نئی نسل کا مثبت رول ماڈل مانا گیا تھا۔ انہوں نے نا انصافی اور غلامی کے خلاف جنگ لڑی تھی اور لوگوں سے اپیل کی تھی کہ وہ ان کی مسجد میں آکر ایک ساتھ عبادت کریں۔انہوں نے فرقہ واریت کے خلاف مہم چلا ئی تھی۔ ا ور غیر مسلموں سے لگاتار مختلف موضوعات پر بات چیت کرتے رہتے تھے۔

عبداللہ قیلم کے لیکچر بھی کافی مقبول تھے۔ان کے زیادہ تر لیکچر تجربات اور سائنس کے حوالے سے ہوتے تھے جنہیں لوگ کافی پسند کرتے تھے۔ لیور پول ہوپ یونیورسٹی کے مذہبی پروفیسر رون گیوس کہتے ہیں کہ’عبداللہ قیلم کی صرف لکھائی ہی اہم نہیں تھی جس سے لوگوں میں تبدیلی آئی بلکہ انہوں نے اس بات  کاگہرا مشاہدہ کیا کہ آخر اسلام برٹش لوگوں میں اتنا غیر مقبول کیوں ہے؟ اور پھر انہوں نے ایسے موضوع تیار کئے اور اسے مسجد میں اس کے بارے میں لوگوں کو جانکاری دی‘۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ انہوں نے اپنے لیکچر کا موضوع صرف مذہبی نہیں بنا یا تھا بلکہ وہ ایک قیمتی ریسرچ پر مبنی تھا۔

عبداللہ قیلم  کے لئے  مذہبی عدم برداشت جب حد سے پار کر گئی تو وہ 1908 میں انگلینڈ کو چھوڑ کر استنبول چلے گئے۔ان کے جانے کے بعد ان کی عمارت کو کونسل نے پیدائش، شادی اور موت کے رجسٹرڈ کے لئے آفس بنا دیا تھا۔کافی عرصے بعد جب وہ انگلینڈ دوبارہ لوٹے تو انہوں نے اپنا نام ہارون مصطفےٰ لیون رکھ لیا تھا۔ انہوں نے ووکنگ علاقے میں شمولیت اختیار کی اور وہیں 1932 میں انتقال کر گئے۔

1999  میں مقامی مسلم لوگوں نے ان کی میرا ث کے تحفظ کے لئے عبداللہ قیلم سوسائٹی کا قائم کی اور ایک سال بعد ان لوگوں نے اس خستہ حالت عمارت کی تزئین اور آرائش کی ذمہّ داری بھی سنبھالی ۔ جس کے لئے انہوں نے لگ بھگ 400000پونڈ عطیہ کے ذریعہ اکٹھا کیا ہے اور اس میں مزید تین ملین پونڈ اور بھی اکٹھا کرنے کا پلان ہے تا کہ اس میں ایک میوزیم اور ورثہ سنٹر بھی قائم ہو۔یہ کام اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ برطانیہ کی سب سے پہلی رجسٹرڈ مسجد ہے۔

برطانیہ میں ہیومن رائٹس ایکٹ 1998 کے ذریعہ انسانی حقوق کا تحفظ کیا جاتا ہے۔ یہ قانون انسانی حقوق کے بارے میں یورپی کنونشن میں طے شدہ انسانی حقوق پر اثر انداز ہوتا ہے۔ آرٹیکل 9  مذہب اور عقیدہ کی آزادی کا حق انسانی حقوق ایکٹ کے تحت محفوظ کردہ حقوق میں سے ایک ہے۔  آج برطانیہ میں اسلام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان جو ساٹھ اور ستر کی دہائی میں ہجرت کرکے برطانیہ آئے تھے انہوں نے عبادت کی خاطر مساجد کو تعمیر کرنا ایک ضروری فریضہ سمجھا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برطانیہ کے تقریباً ہر علاقے میں مساجد قائم ہیں جہاں مسلمان آزادی سے اپنی عبادت کرتے ہیں۔ تاہم عبداللہ قیلم کو بھی کبھی نہیں بھول سکتے جنہوں نے برطانیہ میں سب سے پہلی  جسٹرڈ مسجد قائم کی۔

Leave a Reply