You are currently viewing برطانیہ اور بریکسٹ: آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے!

برطانیہ اور بریکسٹ: آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے!

انگریز بھی عجیب قوم ہے۔ کمبخت گھڑی پر بھی اپنی حکومت قائم رکھے ہوئے ہیں اور اسے اپنی مرضی سے چلاتے ہیں۔ اب آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ میں نے یہ کیا کہہ د یا۔1907میں برطانیہ کے کینٹ کے علاقہ کے رہنے والے بلڈرولیم ایلیٹ نے سب سے پہلے ایک لیف لیٹ  میں لوگوں سے اپیل کی کہ وہ بستر سے جلد اٹھیں اور دن کی روشنی کو برباد نہ کریں۔

 1916میں برطانیہ میں گھڑی کے وقت کی تبدیلی کا رواج باقاعدہ شروع ہوا۔ تاہم جرمنی نے بھی1915 میں گھڑی کے وقت کی تبدیلی کا طریقہ شروع کیا تھا۔اس کے علاوہ گھڑی کے وقت کی تبدیلی کا رواج یورپ کے کئی ممالک میں  ہے۔ تاہم یورپین یونین اس معاملے میں جلد ایک قانون لانے والی ہے جس میں گھڑی کی تبدیلی کا رواج  ختم کردیا جائے گا۔برطانیہ میں دراصل مارچ کے آخری اتوار کو گھڑی ایک گھنٹہ آگے کر دیا جاتا ہے اور اکتوبر کے آخری اتوار کو گھڑی ایک گھنٹے پیچھے کر دی جاتی ہے۔جس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کے کام کرنے کا وقت ضائع نہ ہو۔ برطانیہ میں موسمِ سرما میں دن کافی چھوٹا ہوتا ہے جبکہ موسمِ گرما میں دن کافی لمبا ہوتا ہے۔

لیکن برطانیہ میں موسم سے لاپرواہ سیاست داں اور سیاسی اتھل پتھل نے لوگوں کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ زیادہ تر لوگ ٹیلی ویژن دیکھنے سے گریز کر رہے ہیں کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ (Brexit)بریکسٹ کی خبر کو دیکھ کر  جینا محال ہوگیا ہے۔ یہ بات سچ بھی ہے کہ برطانوی سیاست میں اتنا لمبا کوئی مسئلہ زیر بحث نہیں رہا تھا جتنا بریکسٹ کا چل رہا ہے۔ ہر روز برطانوی پارلیمنٹ میں ہنگامہ ہورہا ہے اور ہر روز حکومت اپنے مقصد میں ناکام ہورہی ہے۔ایسا محسوس ہورہا کہ ایک دروازہ سے داخل ہو کر امید کی کرن نظر آرہی تو دوسرے دروازے سے مایوسی کے آثار دِکھ رہے ہیں۔ مجھے ایک صاحب یاد آرہے ہیں جو مفت مشورہ دینے میں ماہر سمجھے جاتے تھے۔ اعلیٰ تعلیم اور شکل سے ایسے حکیم دِکھتے جن کے پاس ہر مرض کی دوا موجود ہے۔ ان سے جب کوئی مشورہ لینے کے لیے بات کرتا تو وہ  حسبِ معمول  دھیرے دھیرے بات کرتے اور کہتے کہ دیکھئے اس پہاڑ کے اوپر جب آپ کھڑے ہوں گے۔ اور اگر آگے کی طرف بڑھیں تو آگ میں جل جائیں گے اور پیچھے کی طرف کھسکے تو کھائی میں گر جائیں گے۔ مشورہ لینے والا  اسی کشمکش میں الجھ جا تا کہ کروں تو کیا کروں۔ شاید یہی صورتِ حال برطانوی پارلیمنٹ کی ہوگئی ہے۔

ان تمام باتوں کے باوجود سب ایک بات کے منتظر ہیں کہ برطانیہ یورپین یونین سے کب الگ ہوگا؟ 23 جون 2016کو برطانیہ میں یورپ کے ساتھ رہنے اور چھوڑنے کے سوال پر اس وقت کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ریفرنڈم کر وایا تھا۔ جس میں 52%فی صد لوگوں نے (Brexit)بر یکسٹ(یورپین یونین چھوڑنے والوں کا گروپ) کی حمایت میں ووٹ دیا تھا۔ تب سے برطانیہ میں سیاسی اور

معاشی طور پر ایک زلزلہ آیا ہوا ہے جو کچھ حد تک تو تھم گیا ہے لیکن اب بھی (Brexit)بر یکسٹ کا بھوت سر چڑھ کر بول رہا ہے جس سے سیاستداں سے لے کر عام آدمی تک سب نروس اور پریشان ہیں۔

 برطانیہ کے نئے وزیر اعظم بورس جونسن  پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح برطانیہ کے لوگوں اور دنیا والوں کو یقین دلائیں کہ برطانیہ یورپ سے نکل کر بھی ایک مستحکم اور مضبوط معیشت والا ملک ہوگا۔ لیکن ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد برطانوی پارلیمنٹ ایک مضبوط جمہوری ادارہ ابھر کر سامنے آئی ہے۔ ہائی کورٹ نے حکومت کو یہ آرڈر دیا ہے کہ (Brexit)بر یکسٹ کے متعلق کوئی بھی کارروائی یا فیصلہ پارلیمنٹ سے منظوری لیے بغیر نہیں کیا جا سکتا۔اس فیصلے میں حکومت سے کہا گیا ہے کہ (Brexit)بر یکسٹ کے سلسلے میں پارلیمنٹ کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ برطانیہ کو یورپ چھوڑنے کی تاریخ کب اور کس طرح مقرر کرنی چاہئے۔یہ کیس جینا میلر ایک انوسٹمنٹ منیجر نے (Brexit)بر یکسٹ کی کارروائی اور حکومت کے خلاف دائر کیا تھا۔اس کے بعد سے برطانیہ کی سیاست میں بھونچال آیا ہوا ہے۔تاہم بورس جونسن کی حکومت کا کہنا ہے کہ ان کا موقف صاف ہے کہ وہ 31 اکتوبر 2019 کو آرٹیکل 50کے تحت یورپین یونین کو نکلنے کا نوٹس دے د ے گی اور جس کے لئے حکومت نے تیاری بھی شروع کر دی ہے۔لیکن بورس جونسن اتنا بوکھلائے ہیں کہ کبھی وہ عدالت کو نظر انداز کر کے  اوٹ پٹانگ بیان دیتے ہیں تو کبھی پارلیمنٹ میں کوئی نیا بل لا کر اپنا موقف پیش کر رہے ہیں۔

اب معاملہ بجائے سلجھنے کے اور الجھتا جارہا ہے۔ برطانیہ کی تمام پارٹیاں اپنے اپنے طور پر بورس جونسن سے مانگ کر رہی ہیں کہ وہ بریکسٹ ڈیل کو پہلے پارلیمنٹ سے پاس کرائے۔ لیکن یہاں تو مسئلہ کچھ اور ہے۔ بورس جونسن ہمیشہ سے بریکسٹ کے حمایتی رہے ہیں تو انہیں ڈیل وغیرہ سے کیا لینا دینا۔ وہ تو بھاگتے بھوت کو لنگوٹی پیاری سمجھ کر روز پارلیمنٹ میں اوٹ پٹانگ بیان دے کر اپنا الو سیدھا کرنا چاہ رہے۔

لیکن اپوزیشن نے بھی ٹھان لی ہے کہ برطانوی جمہوریت کی لاج رکھتے ہوئے وہ کوئی بھی ایسا قدم نہیں اٹھائے گے جس سے تاریخ انہیں معاف نہیں کرے گی۔تبھی تو تقریباً ہر روز برطانوی پارلیمنٹ گرما گرم بحث سے تاریخ رقم کر رہی ہے۔

جمہوریت کا مزہ تبھی ہے جب ایک پارٹی سے دوسری پارٹی کا اختلاف ہو۔ میں نے کئی بار لوگوں سے ایسی بات سنی ہے جو کسی ایک فرد یا پارٹی کے حمایتی ہونے کے ناطے پارلیمنٹ کے اختلاف کو ملک سے غداری یا ایک فرد کو ناپسند کرنے کا الزام لگا کر جمہوریت کے وقار اور اقدار کو دھچکا پہنچاتے ہیں۔ اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے کہ دو لوگوں میں اختلاف ہو۔ لیکن اگر اختلاف نہ ہو تو جمہوریت اور ڈکٹیٹر شپ میں کیا فرق رہ جائے گا۔

دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں جہاں جمہوریت کے ذریعہ مجرم پیشہ لوگ حکومت بنا کر ملک اور جمہوری نظام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی بے جا طاقت اور دولت کے نشے میں عوام کو بہکا کر اور دولت کا استعمال کر کے جمہوریت کی بنیاد کو کمزور کر رہے ہیں۔ پچھلے کچھ برسوں سے ایسے لوگوں نے دنیا بھر میں جمہوری نظام کا دیوالہ نکالا ہوا ہے۔ ان کا مقصد لوگوں میں نفرت کو پھیلانا، عوام کے ادا کئے ہوئے ٹیکس سے عیاشی کرنا، ملک کے سرمایہ داروں کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کرنا، ملک کے سرکاری اداروں میں غبن عام کرنا، نوجوان نسلوں کو گمراہ کرنا عام بات ہے۔جو کہ ایک نہایت تشویش اور پریشان کن بات ہے۔

یوں تو برطانیہ کی سیاسی صورتِ حال کا اندازہ لگانا کافی مشکل ہے کیونکہ (Brexit)بر یکسٹ کے بعد تمام سیاسی پارٹیاں ریفرنڈم کے نتیجے سے برہم ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ جن میں ایک وجہ معیشت ہے جس سے بزنس کمیونٹی کافی نروس ہے۔ لیکن اس کے علاوہ ایک طبقہ اس بات سے پر امید ہے کے  (Brexit)بر یکسٹ سے ملک کی حالت بہتر ہوگی اور امیگریشن پر کنٹرول ہوگا۔

برطانوی پارلیمنٹ نے پھر اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ بریکسٹ کی تاریخ کو بڑھا دیا جائے جس پر یورپین پارلیمنٹ غور و فکر کر رہی ہے۔لیکن وہیں بورس جونسن اس بات پر بھی زور  دے رہے ہیں کہ کرسمس سے پہلے عام انتخاب بھی ہو جانا چاہئے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بورس جونسن کو اس بات کی امید ہے کہ وہ الیکشن میں کامیاب ہو کر برطانیہ کو با آسانی یورپین یونین سے علیحدہ کر لیں گے۔ لیکن لیبر پارٹی فی الحال الیکشن کرانے کے موڈ میں نہیں ہے۔ گویابرطانوی وزیر اعظم بورس جونسن آسمان سے گرے کھجور میں اٹکے۔دیکھتے ہیں برطانوی پارلیمنٹ اور جمہوریت کس حد تک اپنا وقار قائم رکھتی ہے۔

Leave a Reply