You are currently viewing برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کا زوال

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کا زوال

غالب کا یہ شعر اب بھی لوگ جب کوئی ذلیل یا رسوا ہوتا ہے تو دہراتے ہیں۔نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن۔بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے۔ لیکن کچھ لوگ اتنے بے حس ہوتے ہیں کہ وہ ذلیل و خوار ہونے کے باوجود اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہتے ہوئے ٹس سے مس نہیں ہوتے ہیں اور غالب کا شعر سن کر  واہ واہ کہتے نہیں تھکتے ہیں۔

خیر موجودہ دور میں اگر آپ سے اگر کوئی غلطی جانے انجانے میں ہوجائے تو آپ انگریزی کے لفظ  سوری کہہ کر پلّو جھاڑ سکتے ہیں۔ تاہم برطانیہ کے انگریزی ماحول میں لفظ  سوری کہنا اس لیے لازمی ہے کہ اس سے ماحول کا تناؤ  کم ہوجاتا ہے۔ مثلاً راہ چلتے انجانے میں کسی کو دھکا لگ جائے یا کسی اور بات سے کسی کو تکلیف پہنچ جائے تو انگریزی ماحول میں لوگ فوراً  سوریکہہ کر بات کو رفع دفع ہوجاتی ہے۔ اس سے غلطی کرنے والوں کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے تو وہیں جس شخص کو ٹھیس پہنچتی ہے اسے بھی غلطی کرنے والے انسان کے ساتھ ہمدردی پیدا ہوتی ہے۔ لیکن جب ایک آدمی دوسروں کو احمق سمجھ کر اتنی بار سوری کہے کہ سننے والے کالفظ “سوری”سے اعتبارہی اٹھ جائے تو ایسے انسان کے لیے کسی عہدے، یا کسی تنظیم یا ملک کا سربراہ کے طور پر قائم رہنا مشکل بات ہوجاتی ہے۔جس کی مثال ابھی برطانیہ میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔ تاہم برطانیہ اور چند ممالک ہی ایسی باتوں کے مثال بنتے ہیں ورنہ دنیا کے بیشتر ممالک میں بنا جھوٹ یا بے ایمانی کے آپ کا اعلیٰ عہدے پر فائز رہنا دشوار ہوجاتا ہے۔اگر آپ تھوڑی دیر کے لیے بر صغیر اور دنیا کے دیگر ممالک پر نظر ڈالیں تو  وہاں جھوٹ اور سچ میں تمیز کرنا محال ہوجاتا ہے۔چاہے وہ سیاست ہو، معاشرہ ہو یا گھریلو معاملات۔ غرض کہ اگر آپ نے صرف سچائی سے کام لیا تو لوگ مسکرا کر آپ کو  طنزیہ طور سے ’شریف یا سیدھا‘ کہیں گے۔۔

جمعرات 7 جولائی کو برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے اعلان کیا کہ وہ وزرا کے استعفوں اور پارٹی کے اندر سے بڑھتے ہوئے دباؤ کے پیش نظر حکمراں کنزرویٹیو پارٹی کے رہنما کے عہدے سے سبکدوش ہوجائیں گے۔ پچھلے کچھ دنوں سے بورس جانسن پر استعفی کا زور بڑھتا جارہا تھا۔فی الحال بورس جانسن وزیراعظم ہیں۔لیکن ان کے استعفے نے ان کی جگہ پارٹی کے سربراہ کے طور پر مقابلہ شروع کردیا ہے۔ جیتنے والا قومی انتخابات  کے بغیر پارٹی لیڈر اور وزیر اعظم  بن جائے گا۔بورس جانسن کی وزارت عظمیٰ کئی مہینوں سے معتدد معاملات میں الجھ گئی ہے۔ پچھلے مہینے بورس جانسن کو تب راحت ملی جب وہ کنزرویٹیو ایم پی کے درمیان اعتماد کے ووٹ سے بچ گئے تھے۔ لیکن بالآخر وزیر اعظم ایک کے بعد ایک اسکینڈل میں الجھے  رہے۔لیکن پچھلے ہفتے کرس پنچر کو کا معاملہ اتنا طول پکڑا کہ بورس جانسن کا بچنا محال ہوگیا۔ کرس پنچر کو بورس جونس نے ڈپٹی چیف وہپ مقرر کیا تھا۔ جنہیں ایم پی کے درمیان نظم و ضبط برقرار رکھنے میں ایک سنئیر ممبر کا رول نبھانا تھا۔کرس پنچر نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں استعفیٰ دے دیا تھا جب دوآدمیوں کی جانب سے لندن میں ایک پرائیویٹ ممبرز کلب میں نشے میں دھت ہو کر ان سے چھیڑ چھاڑ اور جنسی ہراساں کا الزام لگایا گیا تھا۔

بورس جانسن نے فروری میں کرس پنچر کو اس عہدے پر ترقی دی تھی جو ساتھیوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داریوں پر مبنی تھی۔ اس واقعہ کے بعد بورس جانسن نے کرس پنچر کو پارٹی سے معطل کرنے سے انکار کر دیا۔ اتوار کے اخبارات میں مزیدچار الزامات سامنے آنے کے بعد بورس جانسن پر دباؤ بڑھنا شروع ہوگیا۔ تاہم بورس جانسن نے اس ہفتے کے شروع میں اس بات کے سامنے آنے کے بعد معافی مانگی تھی کہ اسے بتا یا گیا تھا کہ پنچر ان کی تقرری سے قبل جنسی بدسلوکی کی پچھلی شکایت کا شکار تھا۔ وزیراعظم بورس جانسن نے کہا کہ وہ بھول گئے ہیں۔ بورس جانسن کے سچائی کے ساتھ بے ترتیب تعلقات کی تازہ ترین مثال سے ناراض ایم پی ایک ایسے لیڈر کو ہٹانے کے لیے بے چین ہیں جسے اب بہت سے لوگ انتخابی بوجھ سمجھتے ہیں۔ اس سال کے شروع میں بورس جانسن کو ان کی سرکاری رہائش گاہ نمبر 10 ڈاؤننگ اسٹریٹ پر منعقدہ غیر قانونی پارٹیوں پر جرمانے کے بعد معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا تھا۔یہ پارٹیاں ایسے وقت میں ہوئی جب پورے ملک میں کوویڈ 19پابندیاں نافذ تھیں۔

لیکن ممکنہ طور پر مہلک ضربیں منگل 5 جولائی کو اس وقت لگیں جب بورس جانسن نے کرس پنچر اسکینڈل سے ہونے والے نقصان کو محدود کرنے کی کوشش کرتے ہوئے وزیر خزانہ اور وزیر صحت نے استعفیٰ دے دیا۔اس کے بعد دیگر وزرانے  استعفے دینا شروع کر دیے۔تاہم بورس جانسن بھی فوراً دوسرے وزراء کو نامزد کر رہے تھے تاہم وہیں پارٹی کے اندر ہی ایم پی نے ان کے جانے کا مطالبہ کرنے لگے۔ان کے استعفیٰ کے لیے دباؤ ڈالنے والوں میں وہ اراکین پارلیمنٹ بھی شامل تھے جو پہلے بورس جانسن کے انتہائی وفادار حامیوں میں شامل تھے۔ لیکن بورس جانسن اس وقت کمزور دکھائی دیے جب نئے چانسلرندیم (وزیر خزانہ) نے ایک دن بعد ہی بورس جانسن کو استعفیٰ دینے کا مشورہ دینے لگے۔

بورس جانسن نے کنزرویٹیو پارٹی کی قیادت کرتے ہوئے 2019 کے عام انتخابات میں حزب اختلاف کی لیبر پارٹی کو ہرا کر ایک زبردست کامیابی حاصل کی جس کے نتیجے میں بالآخر برطانیہ کی یورپی یونین سے مکمل علیحدگی ہوئی۔ تاہم پارٹی نے حالیہ ضمنی انتخابات میں کافی نشستیں کھو دی ہیں۔کچھ کنزرویٹیو علاقوں میں بھی ہار ہوئی جس سے پارٹی اور ایم پی میں بورس جانسن کی مقبولیت کا احساس ہونے لگا تھا۔ بورس جانسن جب سے وزیراعظم بنے ہیں انہیں کافی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ اہے۔ جس میں کووڈ 19کی وجہ سے لاک ڈاؤن سے لے کر بڑھتی ہوئی مہنگائی اور حال ہی میں روس کا یوکرین پر حملہ کافی اہم ہیں۔ اس کے علاوہ بورس جانسن کو سیاسی چیلنجز کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ بشمول ان باتوں کے حال ہی میں اسکاٹش نیشنل پارٹی کی جانب سے اسکاٹ لینڈ کی آزادی پر ریفرنڈم کے لیے زور دیا جارہا ہے۔

بورس جانسن تیسرے کنزرویٹیو رہنما ہیں جنہیں ان کی پارٹی نے گزشتہ سات سالوں میں عہدے سے جبری  ہٹایا ہے۔ ڈیوڈ کیمرون نے برطانیہ کی یورپی یونین کی رکنیت کے سوال پر ریفرنڈم کروانے کا اعلان کیا تھااورریفرنڈم کے ہارنے کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔اس کے بعد تھریسا مے نے بریکسٹ ووٹ کے بعد برطانیہ کو پورپی یونین سے نکالنے کی تین سال کی کوشش اور ناکامی کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔

بورس جانسن نے کنزرویٹیو رہنما کے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا کہ یہ ان کے پارٹی کے ایم پی کی “واضح  مرضی”ہے کہ ایک نیا لیڈر ہو۔ وہ اس وقت تک وزیر اعظم کے عہدے پر رہنے کا عہد کرتے ہیں جب تک کہ ایک جانشین کا انتخاب نہیں کیا جاتا۔ لیکن وہیں زیادہ سے زیادہ ایم پی اس بات کی مانگ کر رہے ہیں کہ بورس جانسن کو اب نمبر 10ڈاؤننگ اسٹڑیٹ چھوڑنا ہوگا۔ تاہم بورس جانسن نے کابینہ کو یقین دہانی کرائی کہ وہ اس اس عہدے پر رہتے ہوئے صرف نگراں وزیراعظم کے طور پر کام کریں گے۔لیکن سابق وزیراعظم سر جان میجر کا کہنا ہے کہ بورس جانسن کو اب ملک کی بھلائی کے لیے جانا چاہیے۔

خیر دسمبر 2019میں جب بورس جانسن  اکثریت سے جیت کر برطانیہ کے وزیر اعظم بنے تھے  تو لوگوں کو ان سے بہت ساری امیدیں وابستہ تھیں۔ لیکن کمبخت کورونا، لاک ڈاؤن، مہنگائی اور روس کا یوکرین پر حملے کے علاوہ جھوٹ پر جھوٹ بولنے کی وجہ سے بورس جانسن پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھ گیا۔ اور جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب بورس جانسن  تنہا ہوگئے ہیں اور ان کے تمام ساتھیوں نے ایک ایک کر کے ان کا ساتھ چھوڑ دیا ہے۔خیر اب دیکھتے ہیں کہ نئے وزیراعظم برطانیہ کے وقار کو کیسے بلند کرے گا اور آنے والے دنوں میں برطانیہ کے عوام کو مہنگائی اور دیگر پریشانیوں سے کیسے نجات دلائے گا۔

کہتے ہیں “وتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَا ءُ”جسے تو چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے تو چاہتا ہے ذلیل کرتا ہے۔ سب خوبی تیرے ہاتھ میں ہے، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔اس آیت سے تو ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ بے شک اللہ جسے چاہتا، عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا،ذلت دیتا ہے۔کل تک بورس جانسن کا شمار دنیا کے مضبوط اور اعلیٰ لیڈروں میں ہوتا تھا لیکن فی الحال تو بورس جانسن یہی کہہ رہے کہ “بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے”۔

Leave a Reply