You are currently viewing بدر عظیم نے لگائی تاریخی شاہی تختی

بدر عظیم نے لگائی تاریخی شاہی تختی

 

لندن کی ڈائری
بدر عظیم نے لگائی تاریخی شاہی تختی
برطانیہ کے شاہی شہزادہ ولیم اورشہزادی کیٹ کے یہاں جب نئے شہزادے جورز کی پیدائیش ہوئی تو برطانیہ سمیت پوری دنیا میں اس کی خوشی کی ایک لہردوڑ گئی ۔ دنیا کے تمام اخباروں کی سرخیاں اسی خبر سے بھر گئیں لندن کے بکنگھم پیلیس کے باہر ملکہ کے چاہنے والوں کا ایک مجمع لگ گیا ۔ لوگ یہ جاننے کے لئے پریشان تھے کہ تیسرے نمبر کے نو مو لود تاجدارشہزادہ ہوگا یا شہزادی ؟۔لیکن جب اس خبر کابکنگھم پیلیس کے احاطے میں روایتی انداز سے بورڈ آویزاں کرکے منتظر ہجوم کے سامنے اعلان کیاگیا کہپسر رجمند کی ولادت ہوئی ہے تو بکنگھم پیلس کے باہر کھڑے ہوئے ہجوم نے فرطِ جذبات سے سرشار ہو کر اس خبر کا خیر مقدم کیا اور پُر جوش طریقے سے اپنی خوشی کا اظہار کیا۔
دوسرے دن جب اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی کہ اس خو ش خبری کے سرکاری اعلان کو سنہرے بورڈ پر چسپاں کرنے والا شخص بدر عظیم کا تعلق کلکتے سے ہے تو مجھے اس شخص کے بارے میں تفصیلی کوائف جاننے کی تشویش لاحق ہوئی ۔ بدر عظیم کی زندگی کی شروعات کلکتے کی ایک گنجان آبادی والے علاقے میں ہوئی تھی۔ ۲۵ سالہ بدر خوش نصیب تھا کہ جس دن ا س مبارک خبر کا اعلان ہوا وہ اس وقت اپنی ڈیوٹی پر معمور تھا ۔بدر عظیم کی پیدائیش ایک غریب گھرانے میں ہوئی۔ بدر کے والد محمد رحیم پیشے کے اعتبار سے یک ویلڈر ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ ۳۳ پونڈ ہے (تقریباً ۳۰۰۰ روپئے ماہوار)۔ بدر کی ماں ممتاز بیگم اسی چھوٹے سے مکان میں رہتی ہے جہاں بدر نے اپنے بچپن کے دن گزارے ہیں۔ اس خبر کو پڑھ کر بدر کے گھر والوں کی خو شی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا اور انہیں بدر کے اس خبر کو سن کر انھیں اپنے فرزندِ ارجمند پربڑا فخر محسوس ہوا بدر کے ۲۰ سالہ بھائی مظہر نے کہا کہ بدر نے اس خبر کے اعلان سے اپنے مستقل کی ترقی کی راہ ہموار کی ہے ۔ جبکہ بدر نے کہا ہے کہ اسے یہ کام عام کام کی طرح لگا مگر اس کے لئے یہ ایک فخریہ اور تاریخی موقع تھا۔ بدر کے بھائی مظہر نے یہ بھی کہا کے میرے ماں اور باپ کو اس بات کا فخر ہے کہ یہ کام بدر نے انجام دیا ہے۔ ماں باپ کو بدر کے کام کرنے سے پہلے برٹش رائیل فیملی کے بارے میں اتنی معلومات حاصل نہیں تھی۔بدر کی اس خبر سے گر چہ وہ بہت حیران تھے تاہم بہت زیادہ خوش بھی تھے۔ مظہر نے کہا کہ گھر والوں کو بدر کی اس خبر کا کوئی علم ہی نہیں تھابلکہ یہ خبر گھر والوں کو میڈیا کے ذریعے معلوم ہوئی بد ر کے والدین اس کو بدر کے لیے فیضانِ رحمت سے کم نہیں سمجھتے۔ بدر کی ماں اپنے دو کمروں کے مکان میں جو کہ اپنے ۹ رشتہ داروں کیساتھ مقیم ہے، کہتی ہے کہ مجھے یہ محسوس ہورہا ہے کہ میرے بدر نے میرا سر دنیامیں اندر فخر سے بلند کر دیا ہے۔
بدر نے اپنے آغازِ زندگی کے ۲۵ سال اسی چھوٹے سے کمرے میں گزارے ہیں۔ ان کمروں میں ہر طرف سامان کا ڈھیر لگا ہو ا ہے اور ان کمروں میں اہمیت کی حامل صرف ایک ٹیلی ویزن اور چند پلاسٹک کی کرسیاں ہیں۔ حالا نکہ بدر کے والد گھر والوں کے لئے کھانا بھی بمشکل مہیا کر پاتے تھے مگر انہوں نے تعلیم کو ہمیشہ اہمیت دی اور کسی طرح پیسہ جمع کر کے بدر کو اسکول میں داخلہ دلوایا۔ بدر کے بھائی مظہر نے بتا یا کہ ہمارے والد خود زمین پر سوتے تھے اور ہم لوگوں کو بستر پر سلاتے تھے ا ن کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ ہم لوگ اچھے اسکول جائیں تا کہ ہم اچھی تعلیم حاصل کر سکیں۔ یہاں تک کہ ہمارے والد نے ہماری تعلیم کے لئے قرضہ بھی لیا تھا۔
بدر کی ابتدئی تعلیم کلکتہ کے ایک پبلک اسکول سے شروع ہوئی مگر ابتدئی تعلیم میں بدر کو کافی جدوجہد کرنا پڑی۔ اس کے بعد بدر کو کلکتہ کے سینٹ میری اورپھینج اور ڈے اسکول میں داخلہ مل گیا۔ سینٹ میری اورپھینج اور ڈے اسکول ایک کونگریگیسن آف کرسچن برودرس آف آئرلینڈ چلاتی ہے جس کا مقصد ان بچوں کی مدد کرنا ہے جو غریب، بے گھر اور بے سہارا ہوں۔ بدر اپنے اس اسکول میں کافی خوش تھا اور اپنی پڑھائی میں کافی سنجیدہ تھا۔ بدر کھیل کود میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ سینٹ میری اورپھعنج نے بعد میں انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہوٹل منیجمنٹ کالج کلکتہ میں بدر کے داخلہ کے لئے وظیفہ کا بھی بندوبست کیا گیا جہاں سے بدر نے اپنی ہوسپٹالیٹی منیجمنٹ کی ڈگری کی شروعات کی۔ بدر کالج میں نہایت ہونہار اور محنتی طالب علم تھا۔ بدر کی دو سال کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد سینٹ میری اورپھینج نے مزید دس ہزار پونڈ جمع کئے۔ اور اس طرح سے بدر کو مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے اسکوٹ لینڈ بھیجاجہاں سے بدر نے ایڈن برا(اسکاٹ لینڈ) کی ناپیر یونیور سیٹی سے اپنی ڈگری مکمل کی۔ دورانِ تعلیم بدر نے ایڈن برا میں دس میل کی چیریٹی واک بھی کی تھی جس سے اس نے سینٹ میری اورپھینج اسپانسر اسکیم کے لئے پیسے بھی اکٹھا کیے ۔
۱۵جون ۲۰۱۱ ؁ کو بدر نے اپنا گریجویٹ مکمل کیا اور فروری ۲۰۱۲ ؁ کو جونئیر فوٹ مین کے عہدے سے بکنگھم پیلیس سے اپنے کیرئر کا آغاز کیا۔ بدر نے کہا کہ جس حالت میں وہ بکنگھم پیلس میں رہ رہا ہے یہ اس کے لئے ایک خواب ہے اور بالکل کلکتے سے مختلف ہے اور اس بات کا میں اقرار کرتا ہوں کہ اس کام میں میری کامیابی اس چیرٹی کے بغیر نا ممکن تھا۔
ناپیر یونیورسیٹی کی لکچرر نے بدر کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا کہ جب میں نے بد ر کو ٹیلی ویزن پر بکنگم پیلیس پر بورڈ لگاتے دیکھا تو میں خوشی سے پھولی نہیں سمائی۔ بدر میں ایک اچھے انسان کی تمام خوبیاں موجود ہیں۔ وہ شرمیلا ا ور کافی محتاط رہتا تھا۔ بدر مجھے ہمیشہ میم کہہ کربلاتا تھا۔ میں نے ایک دن اس س کہا کہ وہ مجھ سے پولین کے نام سے مخاطب ہو ، تب سے بدر مجھے پولین میم کہہ کر بلا نے لگا۔
بدر نے تقریبا ۱۸ مہینے بکنگھم پیلس میں فوٹ مین کی نوکری کی اور کئی موقعے پر اسے ملکہ سے بھی ملنے کا اتفاق ہوا۔ اس خبر کے چند روز بعد ہی بدر کا ویزا ختم ہورہا تھا۔ بدر نے اپنے ویزا کی معیاد بڑھانے کے لئے ہوم آفس سے درخواست کی لیکن بدر کو اس بات کا کافی افسوس ہوا کہ جب اس نے اپنے ویزا کی مدت بڑھانے کے لئے ہوم آفس سے درخواست کی تو ہوم آفس نے بدر کے ویزا کی معیاد بڑھانے سے انکار کر دیا۔ آخر کار بدر کو اپنی نوکری چھوڑ کر کلکتہ واپس جانا پڑگیا۔
مجھے اس بات کی پوری امید ہے کہ بدر اپنی تعلیم اور صلاحیت سے جلد ہی کوئی اچھی سی نوکری ڈھونڈ لیگا اور اس طرح اپنے شہر اور گھر والوں کا اور بھی زیادہ نام اونچا کریگا۔

Leave a Reply