You are currently viewing بج گیا ہندوستا ن کے الیکشن کا بگل

بج گیا ہندوستا ن کے الیکشن کا بگل

ہندوستانی لوگوں میں تین باتیں بہت عام پائی جاتی ہے۔ سیاست، کرکٹ اور ہندوستانی فلمیں دیکھنے کا شوق۔دنیا بھر میں بسے ہوئے ہندوستانی ان تین باتوں سے ہٹ کر کسی اور موضوع پر گفتگو کرنا گوارا ہی نہیں کرتے۔برطانیہ میں بھی لاکھوں ہندوستانی کئی دہائیوں سے بسے ہوئے ہیں۔ ان ہندوستانیوں نے برطانوی سیاست، کھیل کود، ثقافت ، اعلیٰ تعلیم اور پیشے میں اپنا ایک منفردمقام بنایا ہو اہے۔ لیکن ان تمام ہندوستانیوں میں ہندوستانی سیاست میں بھی کافی دلچسپی پائی جاتی ہے۔تاہم وہ ہندوستانی نژاد بچے جن کی پیدائش برطانیہ میں ہوئی ہے ان میں ویسا جذبہ نہیں پایا جاتا ، جیسا ہندوستان سے ہجرت کر کے برطانیہ میں آئے ہوئے ہندوستانوں میں ہوتا ہے۔
ہر سال ہندوستان سے بڑے پیمانے پر اعلیٰ تعلیم یافتہ پیشہ وراور کاروباری ہندوستانی برطانیہ اچھے روزگار کی تلاش میں آتے ہیں۔ یہی ہندوستانی ہندوستان کی سیاسی پارٹیوں کی حمایت میں برانچ بنا کر فنڈ اکھٹا کرتے ہیں اور ہندوستان کی سیاست پر گہری نظر بھی رکھتے ہیں۔ (Wembley)ویمبلے اور دیگر علاقوں میں گجراتیوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کی کئی برانچ کھول رکھی ہیں۔ لوگ چھوٹے اور بڑے پروگراموں کے ذریعے اچھی خاصی رقم جمع کرتے ہیں اور اسے ہندوستان بھیج کر اپنی اپنی پارٹیوں کی امداد کرتے ہیں۔
ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جو آبادی کے لحاظ سے چین کے بعد سب سے بڑا ملک ہے ۔ اس کی ثقافت، زبان، فلمیں، پکوان اور نہ جانے کتنی ایسی چیزیں ہیں جو دنیا بھر میں صرف مقبول ہی نہیں بلکہ اثر انداز بھی ہوتی ہیں۔ ہندوستان کا جمہوری نظام اتنا بڑا ہے کہ امریکہ سمیت برطانیہ اور یورپ کے علاوہ کئی ممالک اس کا احترام کرتے اوراس کی مثالیں دیتے ہیں۔ اس میں دو رائے بھی نہیں کہ انگریزوں نے جب ہندوستان کو چھوڑا تھا تو انہوں نے ہندوستان کو کئی ایسی چیزیں فراہم کی تھی جس کے بدولت ہندوستان کا مقام دنیا بھر میں اہم اور اعلیٰ مانا جاتا ہے۔ اس میں جمہوریت اور پارلیمنٹ ایسا اہم ادارہ ہے جو ہندوستان کے عام آدمی کے لئے کافی مفید ثابت ہو رہا ہے۔تاہم یہاں یہ بات بھی زیرِ بحث ہے کہ ہندوستانی جمہوریت کو کچھ لوگوں نے اپنے مفاد اور مقصد کے لئے پامال بھی کیا ہے۔ جمہوریت ایک ایسا عمدہ اور بہترین نظام ہے جس سے کسی ملک کو چلانے اور اس کی ترقی کے لئے عام لوگ اپنا حق استعمال کر سکتے ہیں۔پھر چنے ہوئے ایم پی، لوگوں کے مسائل بنا کسی بھید بھاؤ کے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ تبھی جمہوریت کا استعمال اور اس کا فائدہ عام انسان کو پہنچتا ہے۔
لیکن ایسا دیکھا جا رہا ہے کہ پچھلے کچھ برسوں سے جمہوریت کو غلط طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے۔ جو کہ ایک فکر انگیز بات ہے۔ ہندوستان کے الیکشن میں زیادہ تر امیدوار یا تو کسی مجرمانہ مقدمے میں ملوث ہیں یا کوئی غبن اور بدعنوانی کے معاملے میں پھنسا ہوا ہے۔ گویا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام باتوں سے نجات پانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے ممبر آف پارلیمنٹ بن جانا۔ بیچارے عوام بھی ہندوستانی الیکشن کو اب تفریح کے طور پر دیکھتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ کوئی اپنے بھاشن سے تو کوئی اپنے طاقت کے بل بوتے پر تو کوئی جھوٹے پروپیگنڈے کے سہارے پارلیمنٹ میں داخل ہوجاتا ہے۔
ہندوستانی الیکشن کمیشن نے 2019 کے عام چناؤ کا اعلان کرتے ہوئے الیکشن کو سات مرحلوں میں مکمل کروانے کا اعلان کیا ہے۔یہ انتخاب 11اپریل سے شروع ہو کر 19مئی کو ختم ہوگا اور 23مئی کو ووٹوں کی گنتی ہوگی۔ 90کروڑ لوگ اس بار ہندوستان کے عام چناؤ میں ووٹ دینے کے اہل ہوں گے۔ ہندوستانی الیکشن میں امن و امان برقرار رکھنے کے لئے فوج سے لے کر اسپیشل پولیس کا بھی انتظام کیا جارہا ہے۔جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی الیکشن میں سیاسی مجرم کتنے سرگرم ہوتے ہیں جو کہ ایک شرمناک بات ہے۔
ہندوستانی الیکشن کو کامیاب بنانے اور جیتنے کے لئے ایک خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے۔ انڈیا سینٹر فار میڈیا اسٹیڈیز کے مطابق 2014 کے الیکشن میں سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں نے لگ بھگ 400کروڑ روپئے خرچ کئے تھے۔ اس بار ممکن ہے یہ مصارف دوگنا ہوجائیں۔
پچھلے سال مودی کی حکومت نے ایک نیا انتخابی اصول رائج کیا ہے جس میں ان لوگوں اور کمپنیوں کے نام ظاہر نہیں کئے جائیں گے جو سیاسی پارٹیوں کو امداد پہنچاتے ہیں۔آپ نے تو یہ محاورہ سنا ہی ہوگا کہ اندھے کو کیا چاہئے دو آنکھیں۔ اب اگر ہندوستانی الیکشن میں اتنی رقم خرچ کی جارہی ہے تو کہیں نہ کہیں اس بات کا شک گزرتا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو اس کے بدلے اچھی خاصی آمدنی ہو رہی ہے۔تبھی تو ایک ایم پی الیکشن جیتنے کے بعد اس کے کپڑوں سے لے کر کے اس کے مکان ، گاڑی اور نہ جانے کتنی ایسی چیزیں اس کے پاس آجاتی ہے جن سے ہم اور آپ دن رات محنت کر کے بھی محروم رہتے ہیں۔اس کے بر عکس ایک ووٹ دینے والا عام آدمی جس کی زندگی پریشانِ حال رہتی ہے اور وہ چار سال تک صرف اپنے آپ کو کوستا رہتا ہے کہ آخر ملک کی حالت کب سدھرے گی۔
اس بار ہندوستان کے الیکشن میں متعدد قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں۔کوئی مودی کی دوبارہ جیت کا دعویٰ کر رہا ہے تو کوئی صوبائی پارٹیوں کی جیت سے امید افزا ہے۔تاہم عام آدمی کی زندگی بد سے بد تر ہورہی ہے اور اس کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ مودی حکومت نے پچھلے چار سال میں جس طرح سے عام آدمی کا جینا حرام کیا ہے وہ قابلِ نافراموش ہے۔ مثال کے طور پر کسانوں کا جینا دو بھر ہوچکا ہے کیونکہ ان پر قرض کا بوجھ کافی بڑھ گیا ہے۔2016میں نوٹ بندی نے جہاں کئی لوگوں کی جان لے لی تھی تو وہیں اس کے نتائج زیادہ فائدہ مند نہیں ثابت ہوئے ۔ وی اے ٹی ٹیکس سے چھوٹے بیوپاریوں کا جینا حرام ہو گیا ہے۔ بیرون ممالک کو مال کی برآمد دھیمی ہوچکی ہے اور بہت سارے لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں۔
مودی سرکار پر اس بات کا بھی الزام ہے کہ وہ جان بوجھ کر روزگار کے حوالے سے اعداد و شمار ظاہر نہیں کر رہے ہیں کیونکہ بے روزگاری کافی بڑھی ہوئی ہے ۔ اس کے علاوہ کچھ صوبائی بینکوں کی حالت گونا گوں ہے۔ہندوستانی جی ڈی پی کو 7فی صد یا اس سے زیادہ بڑھنا چاہئے جو کہ اب تک اس حد تک نہیں بڑھ سکی ہے۔
ہندوستانی الیکشن میں مسلمانوں کے ووٹ کو کافی اہم مانا جاتا رہا ہے۔ لیکن پچھلے الیکشن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کا ووٹ صوبائی پارٹیوں کے ہمدردی سے بٹ جارہے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ کٹر ہندو نواز پارٹیاں جیتنے میں کامیاب ہو رہی ہیں۔ یوں بھی مسلمانوں کا کوئی لیڈر نہ ہونے کی وجہ سے مسلمان بیچارے اپنے اپنے طور پر بٹ کر پریشان حال ہیں۔ مسلمانوں کو صوبائی پارٹیاں جان کی حفاظت یا اقلیتی نقطہ نظر سے زبان یا مذہبی طور پر ان کا استعمال کر تی ہیں۔ نتیجہ یہ ہورہا ہے کہ پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی رہنمائی کرنے والا ایک یا دو کے علاوہ کوئی بھی لیڈر موجود نہیں ۔ بیچارے مسلمان اب بھی تعلیم ، روزگار اور دیگر حقوق سے محروم ہیں۔
اس بار ہندوستانی الیکشن میں فرقہ پرست طاقتیں پھر اپنا سر اٹھا نے لگی ہیں۔ یوپی کے سر پھرے وزیر اعلیٰ یوگی ایک بار پھر اپنی زہر آلود تقریروں سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم یوگی کی بکواس کو راجستھان اور مدھیہ پردیش کے لوگوں نے مسترد کر دیا تھا۔ اسی طرح اور بھی کئی ایسے بدنام زمانہ سیاسی لیڈر ہیں جو الیکشن کے موقعے پر ایک خاص فرقے اور مذہب کو نشانہ بنا کر اپنا الّو سیدھا کرنا چاہتے ہیں۔
ہندوستانی الیکشن پر پوری دنیا کی نظر لگی ہوئی ہے کیونکہ اتنے بڑی تعداد میں لوگ ووٹ ڈالے گے۔ہندوستانی الیکشن کے نتائج چاہے جو کچھ بھی ہو ں لیکن میں لوگوں سے یہی اپیل کروں گا کہ وہ الیکشن میں ووٹ ڈالنے سے پہلے اس بات کو ضرور سوچیں کہ ان کے مسائل کیا ہیں اور کون سی پارٹی ان کے مسائل اور ملک کی سلامتی کے لئے بہتر ہے۔ لوگوں کو ایسے لیڈروں کی باتوں میں بالکل نہیں آنا چاہئے جو جھوٹ اور دھوکے سے آپ سے ووٹ لینے کی اپیل کریں۔ مجھے ہندوستانی عوام پر پورا بھروسہ ہے کہ آنے والے الیکشن میں وہ اپنا قیمتی ووٹ اپنے مسائل اور ملک کی ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے دیں گے۔ تاکہ ہندوستان ایک عظیم ملک بنا رہے اور اس کی آن و شان کو دھوکہ بازوں سے محفوظ رکھا جائے۔

Leave a Reply