You are currently viewing ایمسٹرڈیم کے چند روز

ایمسٹرڈیم کے چند روز

 

رمضان سے قبل ایمسٹرڈیم میں مقیم معروف ادیب، شاعر اور سماجی کارکن محمد حسن  کا حسبِ معمول فون آیا اور دورانِ گفتگو انہوں نے ایمسٹرڈیم آنے کی دعوت دے ڈالی۔پہلے تو میں نے حامی نہیں بھری لیکن جب انہوں نے ہالینڈ کے مشہورکیوکن ہوف ٹیولِپ فیسٹیول کا ذکر کیا تو میں نے پر جوش ہو کر دعوت قبول کر لی۔

یوں بھی ہندوستان اور دبئی کے جنوری سفر کے بعد ہم کہیں چھٹیوں پر جانے کی تاک میں تھے۔لندن کی مصروف ترین زندگی سے کچھ پل آرام کے لئے برطانیہ کے زیادہ تر لوگ یورپ کے کسی ملک میں جانا پسند کرتے ہیں۔اس کی ایک وجہ کم وقت میں سفر کرنا، بغیرویزااور شورٹ بریک کے لئے یورپ کے کسی شہر جانا آسان ہوتا ہے۔  میراایمسٹرڈیم پہلے بھی دو بار جانا ہوا تھا۔ پہلی بار 2016میں دسمبر کے مہینے میں اپنی بیگم اور بیٹی کے ساتھ گیا تھا۔ دسمبر کے جاڑے نے ہماری ایمسٹرڈیم ہولی ڈے کی گرم جوشی کو منجمد کر دیا تھا۔تاہم بے انتہا سردی کے باوجود ہم نے کافی جگہوں کی سیر کی تھی اور جس کا ذکر ہم نے اپنے کالم میں بھی کیا تھا۔ اس کے بعد دوبارہ 2022کے دسمبر مہینے میں چند روز کے لئے محمد حسن صاحب سے پہلی بارملنے گیا۔لیکن میرے ایمسٹرڈیم پہنچتے ہی محمد حسن صاحب کی خوش دامن کا ڈھاکے میں انتقال ہوگیا تھا۔جس سے ہمارے چند روز سوگ میں ہی گزر گئے۔

جمعرات 27مارچ کو ہم نے اپنے سفر کیا آغاز کیا اور دوپہر بارہ بجے ہماری بیگم نے مقامی اسٹیشن رینس پارک پر اپنی گاڑی سے چھوڑ دیا۔موبائل میں محفوظ بینک کارڈ کو ٹکٹ بیرئیر پر رکھ کر اسٹیشن میں داخل ہوگیا۔تھوڑی دیر کے انتظار کے بعد اووڑگراؤنڈ ٹرین پر سوار ہو کر ویمبلڈن اسٹیشن کے بعد برطانیہ کا مصروف ترین اسٹیشن کلافم جنکشن پہنچ گئے۔دوپہر کا وقت ہوتے ہوئے بھی لوگوں کی بھیڑ ہر طرف دکھائی دے رہی تھی۔ جس سے اندازہ ہوا کہ کلافم جنکشن کو برطانیہ کا مصروف ترین اسٹیشن کیوں کہا جاتا ہے۔پلیٹ فارم بدل کر میں گیٹوِک ائیر پورٹ جانے والی ٹرین کا انتظار کرنے لگا۔ پلیٹ فارم مسافروں سے بھرا ہوا تھا اور سبھی کے پاس چھوٹے بڑے بیگ اور سوٹ کیس دیکھ کر اندازہ ہوا کہ لندن کے پانچ ائیر پورٹ میں گیٹوِک ائیر پورٹ بھی کتنا مصروف ائیر پورٹ ہے۔

پلیٹ فارم پر کھڑا،ا ٓتی جاتی ٹرینوں اور مسافروں کو چڑھتے اترتے دیکھ رہا تھا اور ذہن میں ایمسٹرڈیم جانے کے خیال نے پر جوش کر رکھا تھا اور ساتھ ہی ساتھ محمد حسن صاحب اور ان کے اہلِ خانہ سے ملنے کے تصور نے مسرور بنا رکھا تھا۔ابھی ہم انہی  خیالوں میں کھوئے تھے کہ گیٹوِک ائیر پورٹ جانے والی ٹرین برق رفتاری سے پلیٹ فارم میں داخل ہوئی اور ایک ایک کر کے سارے مسافر اپنے چھوٹے بڑے

 سامان کے ساتھ ٹرین میں اپنی اپنی سیٹ پر براجمان ہوگئے۔میں نے بھی ایک کھڑکی سے لگی سیٹ پر بیٹھ کر باہر کے دلچسپ نظارہ  سے لطف اندوز ہونے لگا۔پہلے ٹرین ایسٹ کروئیڈن پہنچی اور پھر تھوڑی دیر بعد گیٹوِک ائیر پورٹ اسٹیشن پہنچ گئی۔

پلیٹ فارم سے لگے ائیر پورٹ پہنچ کر ہم نے ڈیوٹی فری شاپ سے کچھ تحفے تحائف خریدے اور وقت مقررہ پر ہم ہوائی جہاز میں بیٹھ گئے۔ لگ بھگ پچاس منٹ کے سفر کے بعد ہم ایمسٹرڈیم کے اسخیفول ائیر پورٹ پہنچ گئے۔ ائیر پورٹ پر محمد حسن صاحب اور ان کے صاحبزادے ارباب نے گلہائے محبت سے استقبال کیا اور ہم بس پر سوار ہوا کر ان کی گھر کی جانب خیزونفیلد چل پڑے۔

محمد حسن صاحب نے پہلے ہی سے ہمارے سیر و تفریح کا پروگرام مکمل کر لیا تھا اور میں ان کے پروگرام کے مطابق ایمسٹرڈیم اور دین ہیگ جانے کے لئے نکل پڑا۔  محمد حسن صاحب نے ایمسٹرڈیم سے دین ہیگ جاتے ہوئے بتایا کہ یہاں معروف صحافی اور شاعر احسن سہگل سے ملاقات کروائے گے۔ احسن سہگل سے میری ملاقات لندن میں دو بارادبی پروگراموں میں ہوچکی تھی۔دورانِ سفردین ہیگ اور دی ہیگ کے درمیان میں کافی کنفیوز رہا۔لیکن جب محمد حسن صاحب نے” دین ہیگ” کے متعلق یہ بتایا کہ یہاں آئی سی سی یعنی انٹرنیشنل کریمنل کورٹ بھی ہے تب میں نے محمد حسن سے پوچھا کہ آپ” دی ہیگ” کو” دین ہیگ” کیوں کہہ رہے۔ محمد حسن صاحب نے بتا یا کہ دراصل ڈچ میں ” دی ہیگ “کو” دین ہیگ” ہی کہا جاتا ہے۔مجھے بھی ڈچ زبان سے نااہلی پر کافی شرمندگی ہوئی۔دی ہیگ میں ہالینڈ کی پارلیمنٹ(جسے ہالینڈ کا انتظامی دارالحکومت بھی کہا جاتا ہے)اس کے علاوہ اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت انصاف یعنی انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کے علاوہ بادشاہ کامحل اور تمام ممالک کے سفارت خانے کا بھی نظارہ ہوا۔ تاہم اقوام متحدہ کے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ میں ہم نے وہاں نہ وکیلوں کی کوئی بھیڑ دیکھی اور نہ ہی روسی صدر پوتین کے گرفتاری کی وارنٹ کی کوئی نوٹس چسپاں تھا۔

اگلے روز ایمسٹرڈیم کے میری ٹائم میوزیم کودیکھنے کے لئے نکلا۔میری ٹائم میوزیم کی عمارت 1656کی ہے جسے ڈینیئل اسٹالپرٹ نے ڈیزائن کیا تھا۔اسے ایمسٹرڈیم بندرگاہ میں بنائے گئے مصنوعی جزیرے پر تعمیر کرنے کے لیے لکڑی کے 1800ٹکڑوں کو کیچڑ والی زمین کی گہرائی میں دھنسایا گیا ہے۔ ایمسٹرڈیم میری ٹائم میوزیم کو 2011میں از سرِ نو تعمیرکرتے ہوئے جدید بنایا گیا ہے۔جس میں جدید میڈیا میوزیم، میری ٹائم لائبریری کے ساتھ ساتھ ریستوراں اور میوزیم کی دکان ہے۔محمد حسن صاحب کی مہربانی سے ہم نے اپنی ایک نظم بھی اس عمارت کے سامنے ویڈیو ریکارڈنگ کرائی۔

اگرآپ چرس یا تمباکو نوشی نہ کرتے ہوں توایمسٹرڈیم کے فٹ پاتھوں پر چلتے ہوئے آپ کو چرس کی مہک کچھ پل کے لئے بے چین کردے گی۔ ہم ایمسٹرڈیم کے سینٹرل اسٹیشن کے پاس ہی ٹہل رہے تھے تو محمد حسن صاحب نے یاد دلایا کہ کیوں نہ ہم پاس ہی ایمسٹرڈیم کے ریڈ لائٹ علاقے کا بھی نظارہ کر لیں۔ میں بھی محمد حسن صاحب کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے ان کے ہمراہ ہو لیا۔ تاہم ذہن میں طرح طرح کے سوالات ابھر رہے تھے کہ کیا ایمسٹرڈیم کا معروف ریڈ لائٹ علاقہ کلکتے کاسونا گاچھی جیسا ہوگا؟ سونا گاچھی کومیں نے یوٹیوب پر اپنی ایک انگریز ساتھی ایلیس کی ایما پر دیکھا تھا جو وہاں سیکس ورکر کے بچوں کو رضاکارانہ طورپر تعلیم دے رہی تھی۔تھوڑی دیر چل کر جب ہم ریڈ لائٹ علاقے پہنچے تو مجھے یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ وہاں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتیں بھی گھوم پھر رہی تھیں۔ جس سے اس بات کا احساس ہوا کہ ایمسٹرڈیم کا ریڈ لائٹ علاقہ کیوں دنیا بھر میں سیاحیوں کے لئے مشہور ہے۔

شیشے کی کھڑکیوں میں برہنہ عورتیں کھڑی آتے جاتے لوگوں کو دیکھتی اور کبھی مسکراتی تو کبھی ایک ماڈل کی طرح خاموش کھڑی  رہتیں۔ہر کھڑکی کے باہر ایک ریڈ لائٹ روشن دان میں جلتا رہتا جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی کہ اس کھڑکی پر سیکس ورکر موجود ہے۔کہا جاتا ہے کہ ایمسٹرڈیم اپنے لبرل اور روادار رویے پر فخر کرتا ہے۔ اس حقیقت کو قبول کرنا کہ لوگ جسم فروشی اور فحاشی میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور یہ کہ یہ صرف انسان ہیں۔ایمسٹرڈیم کا ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ شہر کے قدیم ترین علاقے میں 14 ویں صدی سے موجود ہے۔قانونی طور پرہالینڈ میں جسم فروشی کی اور چرس کے استعمال کی اجازت ہے۔

منگل 3مئی کو جرمنی روانہ ہونے سے قبل محمد حسن صاحب اور ان کے دوست کاظم خان کے ہمراہ ہم کیوکن ہوف کے ٹیولِپس گارڈن دیکھنے نکل پڑے۔ لگ بھگ ایک گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ہم ٹیولِپس گارڈن پہنچ گئے۔ یہ گارڈن مارچ 23سے 14مئی تک کھلا رہتا ہے۔ یہاں ہر سال سات ملین سے زیادہ ٹیولِپ پھولوں کے بلب ہاتھ سے لگائے جاتے ہیں۔ جو موسم خزاں سے شروع ہوتا ہے اورجس میں بہارتک پھول کھلے رہتے ہیں۔ اس میں مختلف رنگوں کے  800ٹیولِپس کی قسمیں ہیں۔تین گھنٹے گزارنے اور مختلف ٹیولِپس کے ساتھ تصویریں اتارنے کے بعد ہم تھک کر چور ہوگئے اور شام چار بجے ٹیولِپس گارڈن کو بائی بائی کہہ کر گھر واپس آگئے۔

 صبح کے چار بجے تھے محمد حسن صاحب نے ٹیکسی بلا رکھی تھی۔ ہمیں ایمسٹرڈیم سنٹرل اسٹیشن پہنچنا تھا جہاں صبح پانچ بجے والی ٹرین پکڑ کر ہمیں برلن جانا تھا۔ ایمسٹرڈیم سنٹرال اسٹیشن پر چند لوگ پہلے سے ہی موجود تھے اور ہم سب ٹرین پر سوار ہو کر برلن کی طرف روانہ ہوگئے۔

Leave a Reply