You are currently viewing ایشور اللہ تیرے نام۔۔۔

ایشور اللہ تیرے نام۔۔۔

کہتے ہیں گاندھی جی کو بھجن اور موسیقی کا کافی شوق تھا۔ گاندھی جی کا ایک بھجن جو مقبول ہوا وہ “رگھوپتی راگھو راجہ رام”تھا جو دراصل میں سری لکشمنا اچاریہ نے لکھا تھا۔ گانے کے بول گاندھی جی کو اتنے پسند آئے کہ انہوں نے اس کو اپنے گیت کے ورژن کے لیے تبدیل کر لیا تھا۔

یہ ترمیم شدہ ورژن 1930کے ڈنڈی مارچ کے دوران گاندھی جی اور ان کے ساتھیوں نے نعرے کے طور پر استعمال کیا تھا۔اس ورژن کو بالی ووڈ کی کئی فلموں میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔ گاندھی جی کی نظم میں اس وقت ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے “ایشور اللہ تیرو نام، سب کو سنمتی دے بھگوان”جیسی لائنیں شامل کی گئیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے تمام نام ایک ہی اعلیٰ ہستی کا حوالہ دیتے ہیں، بشمول ایشور اور اللہ۔

اکتوبر کو پوری دنیا گاندھی جینتی مناتی ہے۔ دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں جہاں ہندوستانی اور گاندھی نواز بسے ہیں، اس تقریب کو بڑے عزت و احترام سے مناتے ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا بھر میں موجود ہندوستانی سفارت خانے میں خاص پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جہاں سیاستداں، سفارتکار،ماہرِ تعلیم اور عام لوگ شرکت کرتے ہیں اور گاندھی جی کے پیغامات پر عمل کرنے کا وعدہ کرتے ہیں۔ گاندھی جی کا لندن سے قریبی رشتہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ گاندھی جی کئی بار لندن تشریف لائے۔ 29ستمبر 1888میں گاندھی جی سب سے پہلے لندن تعلیم حاصل کرنے کے لیے آئے تھے۔لندن پہنچتے ہی سب سے پہلے گاندھی جی نے وکٹوریہ ہوٹل میں کچھ دن گزارا۔ اس کے بعد لندن سے قریب ہی ریچمنڈ علاقے میں کچھ عرصے تک قیام کیا اور پھرویسٹ کینجنگٹن میں کرایے کے ایک کمرے میں رہنا شروع کردیا۔شروع میں گاندھی جی نے ’انگلش جینٹلمین‘ کے طور پر زندگی گزارنی شروع کی لیکن بڑھتے ہوئے اخراجات کی وجہ سے انہیں اپنے زیادہ تر نئے انگریزی شوق کو چھوڑ نا پڑا۔قانون کی تعلیم کے ساتھ ساتھ انہوں نے 1890میں یونیورسٹی آف لندن سے میٹرک کا امتحان بھی پاس کیا۔

 اس غریب پرور،ایشوراور اللہ پر یقین رکھنے والے ایک معمولی انسان، جس کی انسان دوستی اورعدم تشدد کے اعزاز میں ان کا مجسمہ لندن کے تاریخی پارلیمنٹ اسکوائر میں لگایا گیا ہے۔جو پیلس آف ویسٹ منسٹر کے بالکل قریب ہے۔ 14مارچ 2015کو لندن میں گاندھی جی کے مجسمے کی نقاب کشائی کی گئی تھی۔گاندھی جی کے مجسمے کی نقاب کشائی کا ایک خاص مقصدجنوبی افریقہ سے ہندوستان واپسی کی سو سالہ تقریب تھی۔ یہاں میں یہ بھی یاد دلاتا چلوں کہ جنوبی افریقہ میں گاندھی جی کو نسلی بھید بھاؤ کے خلاف تحریک چلانے اور ہندوستانیوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی جرم میں معتدد بار جیل بھی جانا پڑا تھا۔

 برطانیہ کے دو معروف وزیراعظم بنجامن ڈیسرائیلی او ر ونسٹن چرچل کامجسمہ بھی یہیں لگا ہوا ہے۔لیکن سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ گاندھی جی کے مجسمے کوونسٹن چرچل کے مجسمے سے بالکل قریب لگایا گیا ہے جو کہ کئی معنوں میں اہمیت کا حامل ہے۔دی گاندھی ا سٹیچو میموریل ٹرسٹ کی گزارش پر گاندھی جی کا مجسمہ دیگر مجسموں کے مقابلے اونچائی پرہو نے کے باوجود سب میں چھوٹا بنا یا گیا ہے۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ گاندھی جی اپنے آپ کو عام لوگوں کی طرح سمجھتے تھے۔

1930میں اُس وقت کے وزیر اعظم ونسٹن چرچل نے انا سے بھر پور ایک بات گاندھی جی کے متعلق کہی تھی کہ “گاندھی ایک معمولی سا وکیل جو کہ آدھے کپڑوں میں ملبوس بالکل فقیر دکھتا ہے”۔سوانح نگار کے مطابق چرچل نے ایک بار گاندھی جی کے متعلق یہ بھی کہا تھا کہ “گاندھی کو ایک بڑے ہاتھی سے روند ڈالنا چاہیے”۔ یہ بات چرچل نے گاندھی جی کی سول نافرمانی تحریک کے حوالے سے کہی تھی جو انگریزی حکومت کے خلاف چلا رہے تھے۔ اس کے بر عکس اب برطانیہ میں گاندھی جی کو نہایت عزت و احترام سے دیکھا جا تا ہے۔ اب یہاں کے عام لوگ برطانیہ کی نو آبادیاتی تاریخ پر شرمندگی محسوس کر کے گاندھی جی کی سول نافرمانی تحریک اور عدم تشدد کے پیغام کوکافی سراہتے ہیں۔

 معروف انگریز مصوّر فلپ جیکسن نے یہ مجسمہ کو بنایاہے۔ اس سے پہلے فلپ جیکسن نے  کوئین مدر  کا بھی مجسمہ بنا یا تھا۔ 1931 میں گاندھی جی کے لندن دورے کی ایک تصویر دیکھ کرمصور نے اس مجسمے کوبنایاہے۔ یہ نو فٹ لمبا اور اس میں تین چوتھائی ٹن کانسی کا استعمال کیا گیا ہے۔ گاندھی جی پہلے ہندوستانی ہیں جن کا مجسمہ پارلیمنٹ اسکوائر میں لگا یا گیا ہے۔ گاندھی جی کی واحد ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے کوئی سیاسی یا سرکاری عہدہ قبول نہیں کیا تھا۔ اس پروجیکٹ پر ایک ملین پونڈ سے زیادہ کا خرچ آیا۔ اس مجسمے کو بنا نے کے لیے چھ مہینے سے کم عرصے میں رقم اکٹھاکی گئی تھی۔اس کے لیے بیشتر عطیات برطانیہ اور ہندوستان کے لوگوں نے دیے۔دی گاندھی اسٹیچو میموریل ٹرسٹ کے چئیر لارڈ میگھناد ڈیسائی ہیں۔ جنہوں نے اس مجسمہ کی تعمیر کے لیے ایک ملین پونڈ جمع کئے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یہ رقم لگ بھگ چھ مہینے میں عطیات کے ذریعہ جمع کی گئی تھی۔ جس میں ہندوستانی صنعت کار لکشمی متّل کا نام قابلِ ذکر ہے، جنہوں نے اس پروجیکٹ کے لیے ایک لاکھ پونڈ کا عطیہ دیا تھا۔

1931میں گاندھی جی جب دوبارہ لندن آئے تو  لندن کے غربت زدہ مشرقی علاقے میں ٹھہرنے کو ترجیح دی۔اس دوران ان سے معروف اداکار چارلی چیپلین نے بھی ملاقات کی تھی۔ اس کے بعد گاندھی جی لنکاشائر تشریف لے گئے جہاں انگریز مزدور اپنی حقوق کے لیے جدوجہد کررہے تھے۔  کاٹن مل کے احتجاجی مزدوروں نے گاندھی جی سے ملاقات کی۔گاندھی جی نے انگریز مزدوروں کو خاموش کراتے ہوئے کہا کہ ’اب خاموشی سے کچھ لمحے کے لئے میری بات سنیے، مجھے پتہ ہے کہ چند مہینے سے انگلینڈ میں 30 لاکھ لوگوں کوئی کام نہیں ہے اور آپ کو کھانے پینے کے لئے صرف روٹی دستیاب ہے۔ہندوستان میں ہر سال چھ مہینے،  30کروڑ لوگ بیروزگار رہتے ہیں اور کئی دنوں تک انہیں کھانانصیب نہیں ہوتا‘۔ گاندھی جی کی بات کو سن کر انگریز مزدور ان کے شیدائی ہو گئے۔

گاندھی جی کی سادگی اور امن پسندی کے خلاف زہر اگلنے والوں میں کٹر ہندو پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں کے علاوہ آر ایس ایس کا نام بھی سرِ فہرست ہے، جنہوں نے پچھلے عام چناؤ میں جیت حاصل کی تھی۔اس جیت سے ان کٹر پسند ہندو لیڈروں کا حوصلہ کافی بلند ہے۔ یہی لوگ گاندھی جی کی زندگی اور ان کی تحریک پر الزام لگارہے ہیں اور ان پر کیچڑ بھی اچھال رہے ہیں۔ ان لوگوں نے گاندھی جی پر یہ الزام بھی لگا یا ہے کہ گاندھی جی نے ہندوؤں کے ساتھ دھوکہ کیاہے اور مسلمانوں کے ہمدرد تھے۔ اس کے علاوہ گاندھی جی پر یہ بھی الزام لگا یاگیا ہے کہ ان کی وجہ سے ہندوستان کا بٹوارہ ہوا تھا۔ یقینا کٹر پسند ہندو ناتھو رام گوڈ سے کا بھی یہی یقین تھا جس نے جنوری 1948میں گاندھی جی کو گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ اب تو بد قسمتی سے گوڈسے کے ناپاک  اقدام کو صحیح مانا جارہا ہے اور اس واقعہ پر نظر ثانی بھی کی جارہی ہے۔یہی نہیں بلکہ حال ہی میں گاندھی جی کے برسی کے موقعہ پر کٹر پسند ہندوؤں نے ناتھو رام گوڈ سے کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے اس قاتل کے اعزاز میں ایک مندر  بھی تعمیر کیا۔جس سے امن پسند ہندوستانیوں کا سر شرم سے جھکا ہی نہیں بلکہ گاندھی جی کو چاہنے والے کروڑوں لوگوں کے جذبات کو بھی سخت ٹھیس پہنچی ہے۔

یہ سچ ہے کہ کئی دہائیوں سے ہندوستان میں اسکول کے بچوں کو گاندھی جی کے بارے میں ’قوم کا باپو‘ ہونے کا درس دیا جا رہا ہے۔ یہی نہیں بلکہ ہندوستان میں گاندھی جی کی شکل کرنسی سے لے کر سرکاری عمارتوں پر دکھتی ہے جو کہ  قومی جذبہ کی عمدہ مثال ہے۔ لیکن اب ہندوستان میں یہ رویہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ جہاں ہندوستان کی ہائی ٹیک مارکیٹ، صنعتی اور شہروں کی ترقی ہے۔تو وہیں دوسری طرف ہندوستان کے گاؤں اور اس کی بد حالی سے گاندھی جی کے خواب کو دھکا ضرور پہنچاہے۔

اب تونئی نسل آرائش سے بھر پور سامان کا استعمال کرنا، غیر ملکوں کا سفر کرنا یا غیر ممالک میں جا کر بسنے کو  ترجیح دیتے ہیں۔اس کی وجہ شایدہندوستان کافرقہ وارانہ ماحول، بد عنوانی یا مغربی ممالک کی آرائش  یا ایک بہتر زندگی کی خواہش ہے۔ جس کی وجہ سے گاؤں کی ترقی اور گاندھی جی کے چرخے کی بُنائی اب محض ایک کہانی بن کر رہ گئی ہے۔ اس کے علاوہ جن  باتوں نے گاندھی جی کے خواب کو چکنا چور کیاہے وہ ہیں سرمایہ داری نظام، ذات پات کا فرق،عدم مساوات، سیاسی بدعنوانی، مذہبی تشدداور عام آدمی کے رویہ میں تبدیلی وغیرہ۔آج ہمیں گاندھی جی کی عدم تشدد اور بھائی چارگی کے پیغام کی سخت ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔

سچائی اور عدم تشدد کے ایک مضبوط وکیل گاندھی جی نے ناانصافی اور جبر کا مقابلہ کرنے میں محبت اور عدم تشدد کی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ گاندھی جی نے کہا کہ ” کو انسانیت پر اعتماد نہیں کھونا چاہئے۔ انسانیت ایک سمندر کی مانند ہے۔ اگر سمندر کے چند قطرے گندے ہوں تو سمندر گندا نہیں ہوتا”۔ گاندھی جی انسانیت پر یقین رکھتے تھے۔انہیں بھروسہ تھا اور یقین تھا کہ دنیا میں اچھے لوگ ہیں۔ آئیے ہم اور آپ ایک بار پھر گاندھی جی کی زندگی اور ان کے پیغامات پر عمل کرنے کا وعدہ کریں اور امن قائم کریں۔

Leave a Reply