You are currently viewing اکستان کا سیاسی بحران اور عمران خان

اکستان کا سیاسی بحران اور عمران خان

ان دنوں پاکستان سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔ جس کی ایک وجہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کروا کر انہیں ہٹا دیا گیا ہے۔10 اپریل کی آدھی رات کے فوراً بعد پارلیمنٹ میں عمران خان عدم اعتماد کا ووٹ ہار گئے۔جس سے ان کا تقریباً چار سال کا عہدہ ختم ہوگیا۔

 عمران خان نے اقتدار سے چمٹے رہنے کا ہر حربہ آزمایا تھا لیکن آخر کار اپوزیشن اور سپریم کورٹ کے امتزاج نے اسے ناکام بنا دیا۔اس خبر سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسے پاکستانیوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے۔ لندن میں پاکستانیوں نے جم کر مظاہرہ کیا اور سابق وزیراعظم نواز شریف کی رہائش گاہ کے باہر لوگوں نے ہنگامہ برپا کر دیا۔سابق وزیراعظم نواز شریف پچھلے کئی مہینے سے پاکستان چھوڑ کر لندن میں پناہ گزین ہیں۔ دراصل اس کی ایک وجہ ان پر پاکستان میں مقدمہ عائد ہے اور انہوں نے بیماری کا بہانہ بنا کر لندن میں پناہ لے لی ہے۔جب کہ وہیں ان کے بھائی شہباز شریف اور ان کے خاندان کے لوگ مسلسل عمران خان کی حکومت گرانے میں کوشاں تھے جس میں انہیں آخر کار کامیابی مل گئی۔

کافی دنوں کے سیاسی اتھل پتھل کے بعد عمران خان کو پارلیمنٹ میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ 2018 میں جب عمران خان وزیراعظم منتخب ہوئے تو لگ رہا تھا کہ تقریباً سب کچھ ان کے حق میں ہے۔ اپنے کرکٹ کے دنوں سے ایک قومی ہیرو ایک کرشماتی سیاست دان میں تبدیل ہوگیا تھا اور برسوں کی جدوجہد کے بعد وہ دو حریف قائم شدہ سیاسی خاندانوں کی جگہ لینے میں کامیاب ہوگئے۔ جنہوں نے کئی دہائیوں سے پاکستان پر غلبہ حاصل کر رکھا تھا۔ عمران خان نے اپنی سیاست کا آغاز شوکت خانم کینسرہسپتال بنانے سے کیا اور وہ ایک تازہ قوت کے طور پر ابھرے۔ دلکش گانوں سے بھری متحرک ریلیوں کے ساتھ، جس نے سوشل میڈیا پر ان کی موجودگی کے ساتھ، اس کے سخت انسداد بد عنوانی کے پیغام کو مزید وسعت دی۔عمران خان نے ملک میں ’تبدیلی‘ لانے کا وعدہ کیا اور ’نیا پاکستان‘ بنائیں گے سے لوگوں میں اعتماد پیدا کیا۔

پاکستان میں آج تک کسی وزیراعظم نے پانچ سالہ پارلیمانی مدت پوری نہیں کی اور ایسا لگ رہا تھا کہ عمران خان ممکن ہے پہلے وزیراعظم ہوں گے جو پانچ سال کی پوری مدت مکمل کرلیں گے۔ لیکن شاید عمران خان کا عین روس اور یوکرین کی جنگ کے دوران ماسکو جانا مہنگا پڑا۔ ایسا قیاس کیا جارہا ہے کہ عمران خان کا ماسکو جانا کافی مہنگا پڑا۔اور ایسا ہی ہوا جب عمران خان روسی صدر پوتن سے ملنے گئے تو یہ بات امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ہضم نہیں ہوا۔ کیونکہ ٹھیک اس کے بعد ہی عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کے ووٹ کی مانگ کی جانے لگی۔ ان کے بڑے مخالف نواز شریف کو پہلے نا اہل کیا گیا اور پھر کرپشن کے الزامات میں سزا سنائی گئی۔ بہت سے لوگوں کو شبہ تھا کہ نواز شریف واقعی ماضی میں بدعنوانی میں ملوث رہے ہیں اور اب بھی بہت سارے پاکستان نواز شریف خاندان کو بدعنوانی میں ملوث ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔

اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان نے فخریہ طور پر اعلان کیا کہ جب پالیسی، فیصلوں کی بات کی گئی تو وہ اور فوج ’ایک ساتھ‘ ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ سول سوسائٹی کے کارکنوں کو تشویش میں مبتلا کردیا اور حملوں اور اغوا کے واقعات کے ساتھ صحافیوں اور مبصرین کو نشانہ بنایا گیا جو عمران خان کی حکومت اور انٹیلی جنس سروسز دونوں پر تنقید کرتے تھے۔تاہم عمران خان کی حکومت نے اس کی تردید کی ہے اور ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔عمران خان کی پارٹی کے ایک منحرف رکن نے فوج کا حوالہ دیتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ’فوج کے ذریعے انہیں وزیراعظم بنایا گیا تھا‘۔’وہ ہی تھے جو اسے اقتدار میں لائے‘۔

عمران خان نے اصرار کیا تھاکہ ان کی توجہ حکومت کو بہتر بنانے پر ہے اور انہوں نے سماجی بہبود کے نظام میں کچھ متاثر کن توسیع کی ہے۔ مثال کے طور پر ملک کے بڑے حصوں میں ہیلتھ انشورنس اسکیم متعارف کرائی ہے۔تاہم یہ اسکیم دوسرے علاقوں میں ناکام ہوگئی۔ اس کے علاوہ پنجاب کا ایک ناتجربہ کار اور نااہل سیاسی وزیراعلی کا بڑے پیمانے پر مذاق اڑا یا گیا۔ اس کے علاوہ عمران خان پر یہ بھی تنقید کی گئی کہ انہوں نے عثمان بزدر کو تبدیل کرنے سے  انکار کیا۔ یہ بھی افواہیں پھیل گئیں کہ وزیراعظم کی اہلیہ جو ایک طرح کی روحانی خاتون ہیں، انہوں نے انہیں متنبہ کیا تھا کہ عثمان بزدرایک اچھا شگون ہے اور اگر اسے ہٹایا گیا تو پوری حکومت گر جائے گی۔

اس کے علاوہ کورونا کی وبا اور دنیا کی بدلتی صورتِ حال اور امریکہ اور ان کے اتحادیوں سے دوری نے بھی عمران خان کو کافی الگ تھلگ کر دیا تھا۔ کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے اور ڈالر کے مقابلے روپیہ کے گرنے سے پاکستان میں زندگی گزارنے کی لاگت بڑھ گئی ہے۔لیکن عمران خان کے حمایتی انہیں وزیراعظم سے ہٹائے جانے کے لیے امریکہ اور ان کے اتحادیوں پر الزام لگا رہے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ امریکہ نے عمران خان کے تحریک انصاف پارٹی کے چند قومی اسمبلی ممبر کو ایک خطیر رقم دے کر عدم اعتماد کے ووٹ کرانے کی نوبت لائی۔جس کے لیے لندن میں بیٹھے نواز شریف پر الزام لگایا جارہا ہے۔

دریں اثنا عمران خان کے مخالفین فوج کی مخالفت میں تیزی سے آواز اٹھارہے تھے۔ انہوں نے آرمی چیف جنرل باجوہ اور انٹیلی جنس سروسز (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو عمران خان کے عہدے پر ’منتخب‘ کرنے کا ذمہ دار قرار دیا۔ ایسا بھی مانا جارہا ہے کہ فوج عمران خان کی خاص طور پر پنجاب میں حکومت کی ناکامی سے مایوسی کا شکار ہونے لگی اور شاید اپوزیشن کی جانب سے انہیں اقتدار میں لانے کے لیے عوامی سطح پر کسی طرح مورد الزام ٹھہرایا جارہا تھا۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ جنرل باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے درمیان دراڑ پیدا ہونا شروع ہوگئی۔ جنہیں بڑے پیمانے پر اگلے آرمی چیف بننے کی امید کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ لیفٹیننٹ جنرل حمید بظاہر اپنے امکانات پر اتنے پُر اعتماد تھے کہ انہوں نے پہلے بھی پڑوسی ملک افغانستان میں حکام کو بتا دیا تھا کہ وہ فوج کے اگلے انچارج ہوں گے۔

دو طاقتور شخصیات کے درمیان کشیدگی گزشتہ موسم گرما میں مبڈرین کے ساتھ نجی بات چیت کے دوران دیکھی گئی۔ جب ایک صحافی نے سوال کیا اور آئی ایس آئی کے سربراہ نے کہا کہ ’وقت ختم ہوگیا ہے‘۔ تبھی جنرل باجوہ نے نرمی سے کہا ’میں چیف ہوں‘۔ اور ’میں فیصلہ کروں گا‘۔ایسا سمجھا جاتا ہے کہ جنرل باجوہ انٹلی جنس سروسز کا انچارج ایک نیا آدمی چاہتے ہیں۔ تاہم عمران خان، جنہوں نے لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کیے تھے، مزاحمت کی بظاہر وہ چاہتے تھے کہ جب تک انتخابات نہ ہو جائیں، وہ اپنے عہدے پر قائم رہیں۔ خیر عمران خان کلین بولڈ ہوگئے ہیں لیکن انہوں نے عدم اعتماد کے طریقہ کار کو مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنے ٹوئیٹر پر لکھ کر اپنے 123ممبر نیشنل اسمبلی کی تعریف کی کیونکہ ان کے استعفے اسپیکر قاسم سوری نے منظور کر لیے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایک خود مختار پاکستان کے لیے اور امریکی سازش کے تحت حکومت تبدیلی کے خلاف ثابت قدم رہنا قابل ستائش ہے۔ عمران خان نے یہ بھی کہا کہ’اپنے لوگوں کو اس حکومت کے خلاف متحرک کرنے لیے میں پاکستان کے ہر شہر میں جاؤں گا‘۔ انہوں نے مزید یہ کہا کہ پاکستانیوں کو غیر ملکی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ یا آزادی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہے۔

پاکستان کا کمزور جمہوری نظام آزادی کے بعد بدعنوانی، خاندانی اور فوجی حکومت کے ہاتھوں ہمیشہ کٹھ پتلی بنا رہا ہے۔ جس کا خمیازہ پاکستانی عوام کو اب تک بھگتناپڑ رہاہے۔ تاہم وہیں نئی نسل اس بات پر آمادہ ہے کہ وہ پاکستان میں تبدیلی چاہتی ہے اور انہیں عمران خان جیسا ہی لیڈر منظور ہے جو اپنے ملک کی سلامتی اور وقارکے لیے ہمیشہ کوشاں رہے۔ نہ کہ بدعنوانی، چاپلوسی، غیر ملکی دباؤ اور خاندانی حکومت پر مبنی ہو۔اس لیے میں سمجھتا  ہوں کہ موجودہ صورتِ حال میں پاکستان کی جمہوریت کی بقا کے لیے الیکشن کمیشن کو فوری طور پر انتخاب کرا دینا چاہیے تا کہ ملک میں سیاسی خلفشار ختم ہو اور عوام کا اعتماد بحال ہو۔

Leave a Reply