You are currently viewing !انڈیا پوچھتا ہے مودی سے سوال

!انڈیا پوچھتا ہے مودی سے سوال

ان دنوں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں تناؤ ہے۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی ملک کی مسلم اقلیت کے ساتھ اپنے رویے پر الزامات کی زد میں ہیں۔تاہم ایسا پہلی بار نہیں ہوا اور نریندر مودی اپنے سیاسی کیرئیر کے آغاز سے ہی متنازعہ رہے ہیں۔

لیکن جب 2002کے گجرات فساد میں ان کے رول پر جو سوالیہ نشان اٹھایا ہے وہ ان کے 56 انچ ہوا بھرے غبارسینے سے ہوا نکال دیتا ہے اوران کی تمام کامیابیوں پر پانی پھر دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ ایک بار پھر مجرم بن کر سامنے آ جاتے ہیں اور جس سے ان کے حامی اورپارٹی بوکھلا جاتی ہے۔ایک دستاویزی فلم نشر ہونے کے بعد ہندوستان نے بی بی سی پر تنقید کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی 2002میں گجرات فسادات کے براہ راست ذمہ دار تھے جب وہ ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے۔یہ ایپی سوڈ سیاست میں نریندر مودی کے ابتدائی دنوں کے سراغ لگاتا ہے۔ جس میں دائیں بازو کی ہندو تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے ساتھ ان کی وابستگی، بھارتیہ جنتا پارٹی کی صفوں میں ان کا عروج اور ریاست گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پر ان کی تقرری شامل ہے۔

بی بی سی کی دستاویزی فلم اور اس کے کلپس کو سوشل میڈیا پر شئیر کرنے سے روکنے کے لیے مودی حکو مت نے اپنے انفارمیشن ٹیکنالوجی قوانین کے تحت ہنگامی اختیارات کا استعمال کیا اور اس پر پابندی لگا دی۔مودی نے بارہا مذہبی فسادات کے دوران کسی بھی غلط کام کی تردید کی ہے جس میں ان کی ریاست میں 2000سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔ جن میں سے زیادہ تر مسلمان تھے۔ لیکن 2014میں وزیراعظم بننے اور لینڈ سلائڈ حاصل کرنے کے بعد بھی ان پر الزامات مسلسل چھائے رہے ہیں۔

17جنوری کو بی بی سی پر ایک دستاویزی فلم نشر کی گئی۔ جس میں ہندو قوم پرست بھارتینہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی صفوں کے ذریعے مودی کے سیاسی عروج اور مگربی ریاست گجرات کے وزیر اعلیٰ بننے کا نقشہ دکھایا گیا ہے۔ 59منٹ کی دستاویزی فلم میں الزام لگایا گیا ہے کہ مودی جو اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے، نے پولیس کو کئی دنوں تک جاری تشدد پر آنکھیں بند کرنے کا حکم دیا۔ دستاویزی فلم میں سابق برطانوی وزارت خارجہ کی ایک خفیہ رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے کہ جس میں نامعلوم ذرائع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ مودی نے سنئیر پولیس  افسران سے ملاقات کی اور انہیں مسلمانوں پر  ظلم میں مداخلت نہ کرنے کا حکم دیا۔اس نے یہ بھی کہا کہ ’سیاسی طور پر حوصلہ افزائی‘ تھا اور اس کا مقصد’مسلمانوں کو ہندو علاقوں سے پاک کرنا تھا‘۔اس دستاویزی فلم نے نتیجہ یہ اخذ کیا کہ’ریاستی حکومت کی طرف سے استثنیٰ کے ماحول کے بغیر فسادات ناممکن تھے۔ نریندر مودی براہ راست ذمہ دار ہیں‘۔

یہ ڈوکومنٹیری 2002کے گجرات فسادات پر توجہ مرکوز کرتی ہے۔ جو ہندوستان کی حالیہ تاریخ میں مذہبی تشدد کے بدترین پھیلاؤمیں سے ایک ہے۔ جو اس وقت ہوا جب مودی نے ریاست کی قیادت کی۔الزام لگا یا جاتا ہے کہ ریاست میں ہندو یاتریوں کو لے جانے والی ٹرین کو آگ لگانے کے بعد 59افراد کو ہلاک کر دیا گیا۔ اس کے بعد مسلمانوں پر سیدھا نشانہ لگاتے ہوئے انتقامی حملوں میں 1000سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔

دستاویزی فلم میں برطانیہ کے دفتر خارجہ کی ایک غیر مطبوعہ رپورٹ پر روشنی ڈالی گئی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا گیا ہے کہ مودی  ’مخاصمت کے ماحول کے لیے براہ راست ذمہ دار‘ تھے جس نے تشدد کو فروغ دیا۔مودی فسادات کی ذاتی ذمہ داری کے الزامات کی  تردید کرتے ہیں۔ اور ان کے حامی سپریم کورٹ کے 2013کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہیں کہ ان پر مقدمہ چلانے کے لیے ناکافی ثبوت موجود ہیں۔

نریندر مودی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے رہنما ہیں۔ ایک ایسا شخص جو دو بار ہندوستان کا وزیر اعظم منتخب ہوچکا ہے اور بڑے پیمانے پر اپنی نسل کے سب سے طاقتور سیاستدان کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔اسے مغرب کی طرف سے ایشیا پر چینی تسلط کے خلاف ایک اہم رکاوٹ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اسے امریکہ اور برطانیہ دونوں نے ایک اہم اتحادی کے طور پر پیش کیا ہے۔ اس کے باوجود نریندر مودی کی وزارت عظمیٰ ہندوستان کی مسلم آبادی کے تئیں ان کی حکومت کے رویے کے بارے میں مسلسل الزامات کی زد میں ہے۔ یہ سلسلہ ان الزامات کے پس پردہ سچائی کی چھان بین کرتا ہے اور جب ہندوستان کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت کی بات آتی ہے تو ان کی سیاست کے بارے میں دیگر سوالات کو دریافت کرنے کے لیے مودی کی پس پردہ کہانی کا جائزہ لیتی ہے۔

بی بی سی کی دستاویزی فلم کے بارے میں بھارت کی حکومت پریشان ہونے کی وجہ سے برطانوی وزیراعظم رشی سونک کے لیے اس تجارتی معاہدے تک پہنچنا مشکل ہوجائے گا جس کی وہ تلاش کر رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے یہ دستاویزی فلم برطانوی پارلیمنٹ میں سامنے آئی جب لیبر پارٹی کے قانون ساز عمران حسین نے وزیراعظم کے سوالات کے دوران اس کا تذکرہ کرتے ہوئے رشی سونک سے پوچھا کہ کیا وہ برطانوی سفارت کاروں سے اتفاق کرتے ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ مودی 2002میں تشدد کے لیے براہ راست ذمہ دار تھے۔ تاہم برطانوی وزیراعظم رشی سونک کے بیان کو مودی کے حامیوں کا کہنا تھا کہ یہ سونک کے مودی کے دفاع کی عکاسی کرتا ہے۔ان تمام باتوں کے علاوہ ایک اہم بات یہ ہوئی کہ اس دستاویزی فلم نے پوری دنیا کی نظر اس وقت مرکوز کر لی جب ہندوستان نے بی بی سی دستاویزی فلم پر پابندی لگادی۔گزشتہ ہفتے بھارت کی دفاعی حکومت نے دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم انڈیا: دی مودی سوال، کو پروپیگنڈا قرار دیا اور اسے یو ٹیوب اور ٹوئیٹر پر بلاک کرنے کے لیے ہنگامی قانون کی درخواست کی۔ اس کے بعد ہندوستان کی کئی یونیورسیٹیوں میں اسکریننگ پر ہنگامہ ہوا اور ایسا محسوس ہوا کہ ملک میں مودی کی ایمرجنسی نافذ ہے۔

ہیومن رائٹس واچ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ  ’زخم بھرتے ہیں اور انسانی حقوق کی ذمہ داریاں اس وقت پوری ہوتی ہیں جب انصاف اور اصلاح کے لیے سچا عزم ہو۔ اس کے بجائے، بی جے پی کے حامیوں نے 2002کے فسادات میں اجتماعی عصمت دری اور قتل کے مجرموں کو عزت دی ہے‘۔حقوق گروپ نے مزید کہا کہ بی جے پی کا نظریہ’نظام انصاف اور میڈیا میں پیوست ہوچکا ہے، جس سے پارٹی کے حامیوں کو مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کو دھمکانے، ہراساں کرنے اور ان پر حملہ کرنے کا اختیار دیا گیا ہے‘۔

بی بی سی کی دستاویزی فلم نے جہاں ایک بار پھر مودی کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے وہی دنیا بھر کے لیڈروں پر بھی سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں جو ہیومن رائٹس کے چمپئن کہلاتے ہیں۔ یوں تو امریکہ، برطانیہ اور مغربی ممالک ہمیشہ مسلم ممالک میں ہیومن رائٹس پر لگاتار انگلیاں اٹھاتے رہتے ہیں لیکن ہندوستان میں مسلسل مسلمانوں پر جوظلم و ستم ہورہے ہیں اور جس طرح ان ممالک نے چپ سادھ رکھی ہے اس سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قصور شاید مسلمان ہونا ہے؟ خیر ہمیں اللہ کی ذات پر یقین ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ دیر ہی سہی ظالم کو سزا ضرور ملے گی۔

 

Leave a Reply