You are currently viewing امریکی جمہوریت پر ٹرمپ کے حامیوں کا حملہ

امریکی جمہوریت پر ٹرمپ کے حامیوں کا حملہ

لندن سردی سے ٹھٹھر رہا تھا اور میں حسبِ معمول دفتر کے کام میں مصروف تھا۔یوں بھی پچھلے نو مہینے سے کورونا کی وجہ سے گھر سے ہی کام کر رہا ہوں۔ ایک تو کورونا کے تیسری لاک ڈاؤن اور اس پر غضب کی سردی۔ بس ہم گھر میں قید ہو کر زندگی گزار رہے ہیں۔

اس کے باوجود سارا دن امریکی کانگریس کی میٹنگ اور نئے صدر جو بائیڈن کا بطور نئے صدر منتخب ہونے کے اعلان کا بھی انتظارکر رہے تھے۔جس کی وجہ سے کچھ لمحوں کے لیے ماحول امریکی خبروں سے گرمایا ہو اتھا۔گاہے بگاہے کبھی امریکی ٹیلی ویژن سی این این کی خبروں کو دیکھتا تو کبھی الجزیرا تو کبھی اسکائی اور تو کبھی بی بی سی کی خبروں پر نظریں جمی ہوئی تھیں۔ 6جنوری2021 جمہوریت کا ایک سیاہ دن تھا جب امریکہ کے آئین کے محافظ اور قانون دانوں پر حملہ ہوا۔دنیا بھر کے لوگوں نے اپنے ٹیلی ویژن پر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کا جو ننگا ناچ دیکھا اس پر نہ تو انہیں یقین آرہا تھا اور نہ ہی حیرانی ہورہی تھی۔کیونکہ 6دسمبر کو جو کچھ بھی کیپیٹل ہل میں ہوا اس کی دنیا توقع ہی نہیں کر سکتی تھی۔ہنگامہ، توڑ پھوڑ،بندوق، نعرے، اور ایسی کئی باتیں جس سے دنیا بھر کے لوگ آنکھیں پھاڑے اس سش و پنج میں پڑ گئے کہ کیا یہ امریکہ کے جمہوری ادارہ کیپیٹل میں ہورہا ہے یا کسی ہالی ووڈ کی شوٹنگ  ہے۔ یہی نہیں اس ہنگامے کے دوران چار لوگوں کی جان بھی چلی گئی۔

بات ہی کچھ ایسی تھی کہ دنیا حیران و پریشان ہوگئی۔دنیا بھر میں جمہوریت کی رہنمائی کرنے والا امریکہ آج خود دنیا والوں کی نظروں میں ایک مجرم بن کر سر جھکائے کھڑا تھا۔برسوں سے میں یہ سنتا چلا آرہا تھا کہ امریکہ دنیا کا سب سے بہترین اور باوقار جمہوری ملک ہے۔ لیکن 6 دسمبر کو جو کچھ بھی کیپیٹل ہل میں ہوا اس سے تو ایک بات عیا ں ہوگئی کہ جس جمہوریت کے حُسن کوابراہم لنکن نے آن و شان سے پیش کیا تھا اس کے حسین چہرے پر ڈونلڈ ٹرمپ نے سیاہی پوت دی ہے۔ جس سیاہی کو شاید آنے والے دنوں میں مٹانا ناممکن ہو۔ اب تو امریکہ کا معروف کیپیٹل ہل بھی اپنی سفیدی پر شرمندہ ہوگا کیونکہ ٹرمپ کے حامیوں نے رہی سہی کسر اپنے جارحانہ انداز سے پوری کر دی۔

خیر ان تمام باتوں کے باوجود امریکی کانگریس نے اپنا کام جاری  رکھا اور ڈونلڈ ٹرمپ کی تمام ناکام  کوششوں کے باوجود نئے صدر جو بائڈن کی جیت کی تو ثیق کر دی۔ اس دوران نئے منتخب صدر جو بائڈن نے ٹیلی ویژن پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے درخواست کی کہ وہ اپنے حامیوں سے کہے کہ وہ سب گھر واپس جائیں اور کانگریس کو اپنا کام  کرنے دیں۔ جس کے فوراً بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ٹوئیٹ اکاونٹ کے ذریعہ اپنا پیغام دیا کہ وہ پر امن احتجاج کریں اور ایسی کوئی حرکت نہ کریں جس سے امریکہ بد نام ہو۔ لیکن مجھے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نیت پر شک ہے کیونکہ وہ اب تک،کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ تاہم ٹوئیٹر اور فیس بُک نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اکاؤنٹ کو بلاک کر دیا ہے۔

دراصل میں ان تمام باتوں کے لیے امریکی الیکشن سسٹم کو ذمہ دار ٹھہراؤں گا جس  سے ایک سر پھرے اور بدتہذیب انسان نے فائدہ  اٹھا کر جمہوریت کا مذاق اڑایا۔اب آپ دیکھیں امریکی الیکشن نومبر میں ہوا، پھر نتائج آئے، پھر الیکٹرول کولیج ووٹنگ ہوئی، پھر جنوری میں کانگریس کی ووٹنگ ہوئی پھر نائب صدر کا رسمی طور پر اعلان کرنا تب جاکر 20 جنوری کو نئے صدر حلف لیں گے۔اب اس بات سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کا واحد ملک امریکہ ہے جہاں جمہوریت مضبوط ہوتے ہوئے بھی کمزور  ہے۔تاہم کئی سیاسی ماہرین نے امریکی الیکشن سسٹم پر نکتہ چینی بھی کی ہے اور اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس سسٹم پر اب نظر ثانی کی ضرورت ہے۔میں بھی امریکی الیکشن سسٹم سے مطمئن نہیں ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر الیکشن ہونے کے لگ بھگ دومہینے بعد رسمی نتیجے کا اعلان ہو اور پھر نیا صدر بنے تو اس سے سر پھرے اور بد نیت انسان کو اس بات کا موقع مل جاتا ہے کہ وہ جمہوریت کی دھجّیاں اڑائے۔اسی لیے اب وقت آگیا ہے کہ امریکی قانون داں اور سینیٹر زاس بات پر دھیان دیں کہ امریکی الیکشن سسٹم کو  کیسے مزید بہتر بنایا جائے تا کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا شخص جمہوریت کا مذاق نہ بنائے۔

الیکشن میں دھاندلی یا غیر آئینی طور پر حکومت بنا لینا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اگر ہم دنیا کی سیاست پر نظر ڈالیں تو ہمیں آئے دن ایسی خبریں موصول ہوتی رہتی ہیں جنہیں یا جان کر ہم امریکہ یا برطانیہ یا مغربی ممالک کی مثالیں دیتے ہیں۔ جہاں الیکشن کا ہونا، پالیسی پر بحث کرنا یا حکومت کی خوبیوں اور خامیوں پر بلا خوف و خطر آواز بلند کرنا یہی مغربی جمہوریت کی ایک خوبی ہے جس کو پوری دنیا ایک مثال بنا کر اپنے ممالک میں لاگو کرتے ہیں۔لیکن ایشیا، افریقہ اور عرب کے کئی ممالک میں یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ منتخب ممبر ہی آپس میں لڑائی جھگڑے پر اتر آتے ہیں جس پر امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی مغربی ممالک اس کی مذمت کرتے ہیں۔ اور اپنے ملک کی مثال دیتے ہوئے پر امن طور پر حکومت سازی یا جمہوریت کی حفاظت کی باتیں کرتے ہیں۔

امریکی صدر ابراہیم لنکن امریکی اور پوری دنیا میں ایک معتبر اور اہم نام ہے۔ جس کا ہر امریکی صدر اور لوگ اب بھی احترام سے نام لیتے ہیں۔ ابراہیم لنکن ایک ڈاکیے اور کلرک سے زندگی شروع کر کے امریکہ کا سولہواں صدر بنا۔ اس نے اپنی ذاتی محنت سے قانون کا امتحان پاس کیا تھا۔ وکالت کرتے کرتے امریکی کانگریس کا رکن بن گیا اور 1860 میں امریکہ کا صدر منتخب ہوا اور 1864  میں امریکہ کا دوبارہ صدر منتخب ہوا۔ اُس وقت امریکی سینٹ میں جاگیرداروں، تاجروں، صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کا قبضہ تھا۔  ابراہیم لنکن کو آج بھی امریکہ میں ایک منفرد اور اعلیٰ صدر کا درجہ دیا جاتا ہے ا س کی  ایک وجہ یہ ہے کہ ابراہیم لنکن نے  سیاہ فام لوگوں کو غلامی سے آزاد کرانے کی سر توڑ کوشش کی تھی۔ 1863 میں گلامی کے خاتمہ کا اعلان کیا جو کہ امریکی تاریخ میں ایک اہم قدم مانا جاتا ہے۔ اسی لیے آج بھی امریکہ میں ابراہیم لنکن کو یاد رکھا جاتا ہے اور نئے منتخب صدر جو بائیڈن نے بھی اپنی اپیل میں ابراہیم لنکن کا حوالہ دیا تھا۔

خیر گزشتہ روز جو کچھ بھی امریکہ کے کیپیٹل ہل میں دیکھا گیا وہ واقع ایک شرمناک بات ہے۔ اور اس کی پوری ذمہ داری امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو لینی چاہیے۔ جنہوں نے پچھلے چار برسوں میں نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیا کی صورتِ حال کو خانہ جنگی میں تبدیل کر دیا ہے۔ چاہے وہ امریکہ کے لوگوں کی پریشانی ہو، نسل پرستی ہو یا ایران پر معیشت پابندی یا چین سے تجارتی تناؤ ہو۔جس کی وجہ سے ان چار برسوں میں ہر امن پسند انسان کا جینا دو بھر ہو گیا تھا۔

ان تمام ہنگاموں کے باوجو د  رات گئے امریکی کانگریس نے جو بائیڈن کی فتح کی توثیق کر دی۔ امریکی کانگریس کی توثیق کے بعد جو بائیڈن امریکی صدارتی انتخاب کے باضابطہ فاتح قرار دے دیے گئے ہیں اوراب وہ متوقع طور پر 20 جنوری کو حلف اٹھائیں گے۔جس کے بعد امید کی جارہی ہے کہ امریکہ کو ایک نیا صدر ملے گا جو امریکہ کے نازک حالات اورزخمی جمہوریت کو دوبارہ مرہم لگائے گا۔تاکہ امریکہ ایک بار پھر دنیا کے سامنے سر اٹھا کر  کھڑا ہوسکے۔  اور جمہوریت کی حفاظت کا مظاہرہ کر سکے۔

Leave a Reply