You are currently viewing اعتبار اور منافقت

اعتبار اور منافقت


زندگی میں جب اعتبار اٹھ جائے تو زندگی عذاب بن جاتی ہے۔ اعتبار کا اٹھنا کئی معنوں میں ایک ایسا عمل ہے جس سے ہم سب دو چار ہوتے رہتے ہیں۔

مثلاً کوئی بات ہم نے کی اور اسی بات کو ہم نے کسی اور سے سنا۔ جس سے ہمیں اس وقت ایک دھچکا لگتا ہے کہ آخر یہ بات اس بندے تک کیوں کر پہنچی۔ اور پھر ان ہی باتوں سے ہمارے درمیان آپس میں نااتفاقی پیدا ہونے لگتی ہے۔ جو کبھی کبھی دوستی سے دشمنی میں تبدیل ہوجاتی ہے اور اعتماد کا مضبوط رشتہ پل بھر میں شیشے کی طرح چور چور ہوجاتا ہے۔ اسی دوران بات کہنے اور بات سننے والے کے درمیان ایک غلط فہمی بھی پیدا ہونے لگتی ہے۔تاہم ایسا بھی نہیں ہے بلکہ کبھی کبھار ہم باتوں باتوں میں سنی سنائی ہوئی بات کو جانے انجانے میں دورانِ گفتگو کہہ جاتے ہیں۔ یہ بات سچ ہے کہ جب دو لوگ گفتگو کرتے ہیں تو عموماً گفتگو ماحول، حالات، یا پھر کسی فرد پر ہی مبنی ہوتی ہے۔ جس میں اکثر ہم سب کسی کے بارے میں کسی بہانے گفتگو کر ہی جاتے ہیں۔

مذہبی نقطہ نگاہ سے منافق کے معنی عام طور پر یہ ہے کہ نفاق کرنے والا۔ دو رخی کرنے والا۔ یعنی زبان و عمل بظاہر مسلمان اور دل سے اسلام کے خلاف عقیدہ رکھنے والا منافق بھی کہا جاتا ہے اور جو کہ اسلام میں حرام ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چار عادتیں جس کسی میں ہوں تو وہ خالص منافق ہے اور جس کسی میں سے ایک عادت ہو تو وہ بھی نفاق پر ہی ہے، جب تک اسے نہ چھوڑ دے۔ وہ یہ ہیں کہ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے، جب وہ بات کرے تو جھوٹ بولے، جب کوئی عہد کرے تو بے وفائی کرے اور جب جھگڑا کرے تو تو ناحق چلے(صحیح بخاری)۔

قرآن مجید میں منافقین کی علامات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اور لوگوں میں سے بعض وہ (بھی) ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ اور یومِ قیامت پر ایمان لائے حالانکہ وہ (ہرگز) مومن نہیں ہیں۔ وہ اللہ کو (یعنی رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو) اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر(فی الحقیقت) وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ ان کے دلوں میں بیماری ہے، پس اللہ نے ان کی بیماری کو اور بڑھایا دیا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے تھے۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے زمین میں فساد بپا نہ کرو، تو کہتے ہیں: ہم ہی تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ آگاہ ہوجاؤ! یہی لوگ(حقیقیت میں) فساد کرنے والے ہیں مگر انہیں (اس کا) احساس تک نہیں۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ (تم بھی) ایمان لاؤ جیسے (دوسرے) لوگ ایمان لے آئے ہیں، تو کہتے ہیں: کیا ہم بھی (اسی طرح) ایمان لے آئیں جس طرح (وہ) بیوقوف ایمان لے آئے، جان لو بیوقوف(درحقیقت) وہ خود ہیں لیکن انہیں (اپنی بیوقوفی اور ہلکے پن کا) علم نہیں۔ اور جب وہ(منافق) اہل ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم (بھی) ایمان لے آئے ہیں۔ اور جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم یقیناً تمہارے ساتھ ہیں، ہم (مسلمانوں کا تو) محض مذاق اڑاتے ہیں۔ اللہ انہیں ان کے مذاق کی سزا دیتا ہے اور انہیں ڈھیل دیتا ہے (تاکہ وہ خود اپنے انجام تک جا پہنچیں) سو وہ خود اپنی سر کشی میں بھٹک رہے ہیں۔

یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت کے بدلے گمراہی خریدی لیکن ان کی تجارت فائدہ مند نہ ہوئی اور وہ (فائدہ مند اور نفع بخش سودے کی) راہ جانتے ہی نہ تھے ۔ان کی مثال ایسے شخص کی مانند ہے جس نے(تاریک ماحول میں) آگ جلائی اور جب اس نے گردو نواح کو روشن کر دیا تو اللہ نے ان کا نور سلب کر لیا اور انہیں تاریکیوں میں چھوڑ دیااب وہ کچھ نہیں دیکھتے۔ یہ بہرے، گونگے (اور) اندھے ہیں پس وہ (راہِ راست کی طرف) نہیں لوٹیں گے۔یا ان کی مثال اس بارش کی سی ہے جو آسمان سے برس رہی ہے جس میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک(بھی) ہے تو وہ کڑک کے باعث موت کے ڈر سے اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں۔ اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے۔ یوں لگتا ہے کہ بجلی ان کی بینائی اُچک لے جائے گی، جب بھی ان کے کئے (ماحول میں) کچھ چمک ہوئی ہے تو اس میں چلنے لگتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو کھڑے ہوجاتے ہیں، اور بصارت بالکل سلب کرلیتا، بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (البقرہ:(20,8

ایسی باتیں معاشرے میں عام طور دیکھی یا پائی جاتی ہیں، جہاں ہمیں اپنی منافقت کا علم ہی نہیں ہوتا ہے۔ ہم اکثر لوگوں سے کسی کے بارے میں پوچھ لیتے ہیں جو ہمارے لیے ضروری نہیں ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر مسجد سے نماز پڑھ کر جب میری ملاقات سلطان سے ہوئی تو سلام کے بعد حال چال پوچھا۔ یہ بھی پوچھا کہ نسیم کا کیا حال ہے۔ سلطان نے مسکرا کر جواب دیا کہ آج کل نسیم سے میری ملاقات نہیں ہوتی جبکہ کل ہی نسیم نے مجھے بتایا کہ وہ سلطان کے گھر گیا تھا اور دونوں نے ایک ساتھ ناشتہ کیا۔ اب یہاں غور کیا جائے تو یہ بات صاف عیاں ہے کہ سلطان یا تو یہ چھپانا چاہ رہا ہے کہ وہ نسیم سے نہیں ملتا یا وہ دوسروں کی بات کرنے سے گریز کر رہا ہے۔ گویا یہاں دونوں معنوں میں سلطان کی بات غلط نہیں ہے۔ کیونکہ ممکن ہے سلطان دوسروں کی بات کرنے سے گریز کر رہا ہو۔ کیونکہ ہم اکثر لوگوں سے کسی کے متعلق بات کرکے اسے غیبت سمجھ بیٹھتے ہیں اور کبھی کبھی یہ باتیں غلط فہمی پیدا کر کے ہمارے درمیان تلخیاں پیدا کر دیتی ہیں۔ اس طرح ایک دفعہ بابر جوں ہی مسجد کے دروازے پر پہنچا اس کا موبائل چیخنے لگا۔ بابر نے فوراً کہا ’ابھی میں کسی کے ساتھ ریسٹورینٹ میں ہوں۔ بات نہیں کر سکتا‘۔

مجھے لگتا ہے کہ دورانِ گفتگو کسی تیسرے بندے کے متعلق اتنا ہی بتا ئے جس کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ جو بات ہوئی وہی کہی جائے یا اس سے گریز کیا جائے۔ اس سے زیادہ بتانا یا غلط بتانا ہی ہمیں منافقت کی طرف دھکیل دیتا ہے۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی ہم تیسرے بندے کی بات کر کے اپنے دوست کو خوش یا آگاہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ ہم اس کی نظر میں سر خرو ہو جائیں۔ جس سے اعتبارتو ٹوٹتا ہی ہے اور منافقت کو بھی بڑھاوا ملتا ہے۔ جو کہ ایک شرمناک بات ہے۔

برطانیہ میں ان دنوں وزیراعظم بورس جونسن کی منافقت سے لوگوں میں کافی ناراضی ہے کیونکہ پچھلے کرسمس میں انہوں نے ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان کرکے خود چھپ چھپا کر کرسمس پارٹی منائی تھی۔ واضح ہو کہ جب 2020میں ملک دوسرے لاک ڈاؤن کی لپیٹ میں تھا تو وزیراعظم بورس جونسن نمبر ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ کی کرسمس پارٹی میں شرکت کی تھی۔ بورس جونسن پر مسلسل دباؤ بنا ہوا ہے اور ان پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے کووِڈ کے قوانین کو توڑا ہے۔ یہاں بھی بورس جونسن کی اس حرکت سے لوگوں کا ان پر سے اعتبار اُٹھ گیا ہے اور وہ بورس جونس کی منافقت سے کافی ناراض ہیں۔

دنیا کے جمہوری نظام کا اگر جائزہ لیا جائے تو ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ جمہوری نظام کی بنیاد ہی منافقت پر ہے۔ ممکن ہے بہت سارے لوگ ہماری بات سے اتفاق نہیں کریں گے۔ لیکن برطانیہ، امریکہ اور مغربی ممالک کے علاوہ چند عرب ممالک کی خارجہ پالیسی اس کی ایک عمدہ مثال ہے۔ یوں بھی انگریز ہماری طرح دوسروں کی باتیں کر کے منافقت نہیں کرتا بلکہ اپنی دوہری پالیسی سے آپ کے خلاف محاذ کھول دیتا ہے۔ تاہم سارے انگریزوں کو اس طرح کہنا بھی مناسب نہیں ہوگا۔ کیونکہ بہت سارے انگریز اس فعل سے دور ہیں کیونکہ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ منافقت نہیں کر سکتے اسی لیے وہ اس کا احتجاج بھی کرتے ہیں۔

منافقت میں ظاہر اور باطن کی بات بھی کافی اہم ہے ۔ ہم اکثر لوگوں کے خد و خال سے اپنے ذہن میں ایک خاکہ بنا لیتے ہیں۔ جس سے ہمیں کبھی کبھار کافی دھوکہ ہوتا ہے۔ ان میں سیاستدان، کاروباری، بابا، وغیرہ کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہمارا معاشرہ ایسے لوگوں کو ان کے عہدے، آن بان اور شان، شہرت، وقار، سوٹ بوٹ، رنگ و روپ اور جھوٹی تعریفوں سے ہی قدر کرتے ہیں۔ تبھی تو ہم سب حقیقی باتوں سے ہٹ کر خوامخواہ زندگی کو عذاب بنائے پھرتے ہیں اور دھوکہ کھاتے رہتے ہیں۔

اعتبار اور منافقت کے متعلق آج ہم نے مختصر طور پر اپنا جائزہ لینا چاہا ہے۔ یوں بھی ہمیں ہمیشہ اپنے کردار کا جائزہ لینا چاہیے۔ ہماری روزمرہ کی زندگی میں ہر انسان خود کو اعلیٰ و برتر اور دوسروں کو کمتر یا حقیر سمجھتا ہے۔ جس سے ہم سب دوچارہیں۔ لیکن ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم منافقت سے بچیں اور ایک اچھا انسان بن کر سادگی سے زندگی بسر کرے تاکہ ہم اپنا اعتبار ان لوگوں پر نہ کھوئے جو سماج میں اعتبار کے قابل ہوتے ہوئے بھی غلط فہمی کے شکار ہوجاتے ہیں۔

Leave a Reply