You are currently viewing اسٹیفن ہاکنگ کی وفات اور موٹر نیورو بیماری

اسٹیفن ہاکنگ کی وفات اور موٹر نیورو بیماری

موت ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جس سے ہم اور آپ انکار نہیں کر سکتے۔ روزِ اوّل سے انسان چاہے وہ پیغمبر ہو، جادو گر ہو، غیب کی علم جاننے والا ہو، ڈکٹیٹر ہو، بادشاہ ہو، سیاستداں ہو، سائنسداں ہو، مذہبی ہو ، بے دین ہو ،دولت مند ہو یا غریب ہو موت کا مزہ سبھوں نے چکھا ہے۔ ہمارا یقین اور ایمان بھی یہی ہے کہ ’ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے‘۔ دنیا میں جو بھی آتا ہے اسے ایک دن جانا ہی پڑتا ہے۔ یہاں کوئی بھی مستقل طور پر نہ تو رہا ہے اور نہ ہی رہے گا۔

اس کے باوجود اللہ کی بھیجی ہوئی نعمتوں اور لوازمات میں ہم اس قدر گھل مل جاتے ہیں کہ موت کی حقیقت کو جانتے ہوئے بھی اللہ کی نعمتوں سے خوب لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں۔ اور جب یہی مادّیات ہمارے اندر قوت بخشتی ہے تو ہم کبھی فرعون تو کبھی ہٹلر بن جاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم موت کو اٹل نہ سمجھ کر کچھ پل کے لئے طرح طرح کے معاملات میں الجھ جاتے ہیں۔ لیکن ایک دن جب اسی فرعون یا ہٹلر کو موت دبوچ لیتی ہے تو پھر ہم خدا تعالیٰ کو یاد کرنے لگتے ہیں اور ہمیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ ہم دنیا کی تمام چیزوں کو اپنے قبضے میں کر سکتے ہیں سوائے ایک موت کے۔ 14مارچ کو دنیا کے معروف سائنسداں اسٹیفن ہاکنگ کا انتقال ہوگیا۔ ان کی موت کی خبر سے دنیا بھر کے لوگوں کو مایوسی ہوئی۔ دنیا بھر میں سیاستداں اور سائنسدانوں سے لے کر عام لوگوں نے اسٹیفن ہاکنگ کی موت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا۔ کئی دنوں تک ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر اسٹیفن ہاکنگ کو تہنیت پیش کی گئی تو وہیں اخبارات میں بھی اسٹیفن ہاکنگ کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔

اسٹیفن ہاکنگ کا تعلق انگلینڈ سے تھا ۔ 8جنوری 1942کو اسٹیفن اوکنگ کی پیدائش آکسفورڈ میں ہوئی تھی۔ 1959انہیں معروف آکسفورڈ یونیورسٹی میں نیچرل سائنس میں ڈگری کرنے کا موقعہ ملا۔ اس کے بعد اسٹیفن ہاکنگ نے کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا۔ 1963میں اسٹیفن ہاکنگ کو’ موٹر نیرو بیماری‘ تشخیص کی گئی اور ڈاکٹروں نے انہیں چند مہینے زندہ رہنے کی پیشن گوئی کی۔ اسٹیفن ہاکنگ کو غیر معمولی ذہانت کی بدولت دنیا کا ایک عظیم سائنسداں مانا جاتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ کی دریافت اور غیر معمولی ذہانت کی وجہ سے انہیں آئین اسٹائن کے برابر کا سائنسداں بھی مانا جاتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ نے ’بلیک ہول‘ تھیوری سے یہ دریافت کیا کہ روزانہ نئے سیارے جنم لیتے ہیں۔ بلیک ہول سے ایسی شعاعیں نکلتی ہیں جس سے کائنات میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ بلیک ہول کی ان شعاعوں کو ’ہاکنگ ریڈی ایشن ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اسٹیفن ہاکنگ کا پسندیدہ مضمون فزکس اور ریاضی رہا تھا۔ انہوں نے ان مضامین میں اپنی مہارت منوا لی تھی جس کی وجہ سے دنیا بھر کے سائنسداں حیران کن تھے ۔تاہم ان کی زندگی کا ایک منفرد اور المناک پہلو ان کی ایک عجیب بیماری تھی۔ اسٹیفن ہاکنگ کالج میں ایک درمیانی درجے کے طالب علم تھے۔ انہیں فٹ بال، سائیکل کی سواری اور کشتی چلانے کا بھی شوق تھا۔ اس کے علاوہ اسٹیفن اوکنگ  روزانہ لمبی دوڑبھی لگاتے تھے۔

1963میں اسٹیفن ہوکنگ کیمبرج یونیورسٹی میں جب وہ پی یچ ڈی کر رہے تھے کہ ایک دن ان کا پاؤں سیڑھیوں سے پھسل گیا۔ ڈاکٹروں نے ان کا طبی معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ اسٹیفن ہوکنگ ’موٹر نیورو بیماری‘ میں مبتلا ہیں۔ موٹر نیورو بیماری انسان کے دل کو کمزور کرتی ہے جس سے دل کے چھوٹے چھوٹے عضلات جسم کے مختلف افعال کو کنٹرول کرتے ہیں۔ جبکہ سائنسداں اس بیماری کی تشخیص سے پہلے صرف دماغ کو ہی جسم کے اعضا پر کنٹرول کرنے کا مالک سمجھتے تھے۔ لیکن بیسویں صدی کے آغاز پر جب ایک مریض کا معائینہ کیا گیا تو پتہ چلا کہ انسان کے جسم کی سرگرمیاں صرف دماغ سے ہی نہیں بلکہ دل سے بھی ہوتا ہے۔ دل کے عضلات کو’ موٹرز ‘ کہا جاتا ہے۔ اسی موٹرز کے کمزور یا مرنے سے جسم کے تمام اعضاء ناکارہ ہونے لگتے ہیں۔ اسی طرح انسان دھیرے دھیرے اپنے آپ کو موت سے قریب ہوتا ہوا محسوس کرنے لگتا ہے۔
اسٹیفن ہاکنگ جب 21سال کے تھے تب انہیں’ موٹر نیرو بیماری ‘ ہوئی تھی۔ تاہم ڈاکٹروں نے زیادہ تر ایسے مریضوں کو دو سے تین سال تک ہی زندہ رہنے کی پیشن گوئی کرتے ہیں۔ لیکن اسٹیفن ہاکنگ نے ڈاکٹروں کی پیشن گوئی کو مات دے کر ایک عرصے تک زندہ رہے۔

دھیرے دھیرے ہاکنگ کی انگلیاں ، ہاتھ، بازو، پاوٗں، اور زبان کمزور پڑنے لگی۔ 1965میں انہیں ویل چئیر کا سہارا لینا پڑا۔ کچھ دنوں کے بعد ان کی گردن بھی کمزور ہوگئی اور ایک جانب ڈھلک گئی۔ اس طرح اسٹیفن ہاکنگ اپنی ضروریات کے لئے دوسروں کے محتاج ہو گئے۔ لیکن جدید سائنس کی بدولت اسٹیفن ہاکنگ کو ایک ایسا اسکرین بنا کر دیا گیا جس میں وہ اپنی پلکوں سے مواصلات کرتے تھے۔ بلکہ انہوں نے اسی کے سہارے اپنے ریسرچ کا کام مکمل کیا۔  اسٹیفن ہاکنگ کو 1974میں ڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا لیکن اس عظیم سائنسداں نے ڈاکٹروں کی پیشن گوئی کو شکست دیتے ہوئے زندہ رہنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ اسٹیفن ہاکنگ اپنے جسم سے مفلوج تھا لیکن اس نے دنیا کو اپنی پلکوں سے یہ ثابت کیا کہ وہ ایک کامیاب سائنسداں ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی نے اسٹیفن ہاکنگ کے لئے پلکوں سے بات چیت کرنے کا ایک کمپیوٹر ایجاد کیا۔ جس کی بدولت انہوں نے دنیا بھر کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں لکچر دیئے۔ اسٹیفن ہاکنگ اپنے خیالات کو پلکوں کے ذریعے کمپیوٹر پر منتقل کرتے تھے اور پھر کمپیوٹر اسے لوگوں کے سامنے پیش کرتا تھا۔ انہوں نے پلکوں کے سہارے کئی کتابیں بھی لکھیں ہیں جو کہ ایک بے مثال بات ہے۔

اسٹیفن ہاکنگ نے اپنے لیکچر میں بہت ساری باتیں کہی ہیں جو سائنس اور انسانی زندگی کے لئے اہم مانی جاتی ہیں لیکن ان کی یہ بات اب بھی کافی مقبول ہے جب انہوں نے ایک بار کہا کہ ’ اگر میں معذوری کے باوجود کامیاب ہو سکتا ہوں ، اگر میں میڈیکل سائنس کو شکست دے سکتا ہوں، اگر میں موت کا راستہ روک سکتا ہوں تو تم لوگ جن کے سارے اعضاء سلامت ہیں ، جو چل پھر سکتے ہیں، جو دونوں ہاتھوں سے کام کر سکتے ہیں، جو کھا پی سکتے ہیں جو قہقہہ لگا سکتے ہیں اور جو اپنے تمام خیالات دوسرے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں وہ کیوں مایوس ہیں‘۔

میں اسٹیفن ہاکنگ کی موت پر گہرے دُکھ کا اظہار کرتا ہوں ۔ اس عظیم سائنسداں نے جہاں دنیا کو بلیک ہول جیسی تھیوری دی تو وہیں اس نے معذور لوگوں کو عام انسانوں کی طرح جینے کا حوصلہ بھی بخشا۔ میں نے رائل ہاسپٹل فور نیورو ڈس ایبیلٹی میں ہزاروں ایسے مریضوں کو دیکھا ہے جو دماغ کے زخمی ہونے کی وجہ سے مفلوج تو ہوجاتے ہیں لیکن ہسپتال کے ہونہار انجنئیروں کی مدد سے انہیں ایک ایسی ویل چئیر اور بات چیت کے لئے ایسا کمپیوٹر فراہم کیا جاتا ہے جس سے وہ نہ کہ عام انسانوں کی طرح روز مرّہ کی زندگی گزارتے ہیں بلکہ وہ اپنے احساسات کو اپنے گھر والے اور دوستوں سے بھی شئیر کرتے ہیں جو کہ ایک خوش آئیند بات ہے۔

Leave a Reply