You are currently viewing اردو ہے جس کا نام۔۔۔

اردو ہے جس کا نام۔۔۔

پچھلے دو سال سے جس طرح پوری دنیا کورونا وبا سے متاثر ہوئی اس سے اردو ادب کا بھی بڑا نقصان ہوا اور کئی اردو ادیب کورونا کا شکار ہوگئے۔

اس دوران جن دانشوروں، شعرا اور ادیبوں کو ہم نے کھویا، ان میں شمس الرحمن فاروقی،گوپی چند نارنگ، شمیم حنفی،مجتبیٰ حسین، رتن سنگھ، پروفیسر صاحب علی،عبدالاحد ساز،گلزار دہلوی،فراغ روہوی،مولا بخش،کریم رضا مونگیری،محمد اظہر عالم،ڈاکٹر ارمان نجمی، سعدیہ دہلوی، راحت اندوری، مظفر حنفی، ساحر شیوی، ڈاکٹر حنیف ترین، ترنم ریاض،عبید صدیقی وغیرہ ایسے لوگ ہیں جن کے جانے سے اردو ادب میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے جو ناقابلِ تلافی ہے۔ کلکتہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب روزگار کے سلسلے میں برطانیہ آیا تو مجھے برطانیہ میں اس بات کا احساس ہوا کہ اردو زبان بولنے والوں کی تعداد اچھی خاصی ہے۔یوں تو مجھے برطانیہ میں رہتے ہوئے تیس سال ہو چکے ہیں۔ دراصل 2000میں مجھے پہلی بار اردو تحریک کے عالمی سیمینار اور مشاعرے میں شرکت کرنے کا موقعہ ملااور مجھے سیمینار کی نشست میں لوگوں سے مل کر اس بات کا اندازہ ہوا کہ برطانیہ میں اردو زبان کی مقبولیت کافی فرو غ پا ررہی ہے۔ لیکن اس اجلاس میں میری طرح وہ تمام شرکا شامل تھے جو ہندوستان، پاکستان اور افریقہ سے ہجرت کر کے اس خطہئ ارض پر آباد تھے۔ جب اس بات کا انکشاف ہوا کہ برطانیہ میں اُردو بولنے والوں کی تعداد کئی سو نہیں بلکہ کئی ہزار سے زائد ہے تب مجھے اس بات پر حیرت کے ساتھ حدرجہ خوشی بھی محسوس ہوئی۔ خوشی اس بات کی کہ اردو زبان سے لگاؤ رکھنے والوں کی ایک خا صی بڑی تعداد نظر آئی لیکن جو بات قابلِ تشویش محسوس ہوئی وہ تھا نئی نسل کی عدم موجودگی کا المیہ۔

برطانیہ میں مقیم اردو کے فروغ سے وابستہ چند سماجی اور ثقافتی ننظیموں کے علاوہ خود حکومت ِ برطانیہ بھی بعض سماجی تقاضوں کے باعث اردو زبان کے ابلاغ کا ایک ذریعہ بن گئی ہے۔انگلستان کے شہروں اور مضافات میں آباد لاتعداد اردو بولنے والے باشندے ہیں جو نہ برطانوی سماج کی طرزِ معاشرت کا اہم حصہّ ہیں بل کہ اُن میں سے بیشتر انگریزی زبان و تہذیب سے کما حقہ واقف ہونے کے سبب ملک و سماج کی سیاست اور دیگر انتظامیہ امور میں ایک کلیدی رول بھی ادا کرتے ہیں۔ اور وہ شہری جو انگریزی زبان سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں ان کی سہولیات کے لیے حکومت نے زندگی کے مختلف شعبوں میں اردو کو ذریعہ ابلاغ بنایا ہے۔

یوں بھی برطانیہ کو اردو کا تیسرا مرکز مانا جاتا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہاں کئی نامور شاعر، ادیب، مصنف اور دانشور وں نے اردو زبان میں اپنی تخلیقات شائع کی ہیں جو اردو کی ترویج میں بلا شبہ ممد و معاون ثابت ہو تی ہیں۔ پرفیسر رالف راسل کا شمار اردو زبان کے اُن مستشر قین محققوں اور مدرسین میں شمارہو تا ہے جنہوں نے اردو کی بیش بہا خدمت انجام دی ہے اور غالب اور مطالعہئ غالب کے سلسلے میں انہوں نے جو تحقیق و تدریس کا کام کیا ہے وہ لازوال شہرت کا حامل ہے۔ غالب شناسی میں نہ صرف ان کا نام بل کہ ان کا مطالعہ اور تحلیقی  کام نہایت وقیع اور ممتاز ہے۔ وہ دراصل لندن اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹیڈیز سے اردو پروفیسر کی حیثیت سے منسلک تھے۔

برطانیہ میں آج بھی اردو زبان کی خدمت میں چند ادبی تنظیمیں نمایاں رول ادا کر رہی ہیں۔ تاہم یہ تنظیمیں اپنے اپنے طور پر ہوائی جہاز کے کلاس کے طور پر اپنی پہچان بنانے کے لئے  پروگرام کا منعقد کرتی ہیں۔ا ن محافل کی مشابہت، میں ہوائی جہاز کے سفر کے فرسٹ کلاس، بزنس کلاس اور اکانومی کلاس سے کر تا ہوں۔ یعنی برطانیہ میں اردو زبان و ادب کی ایک محفل ایسی ہوتی ہے جہاں ایک اردو لکھنے پڑھنے والوں کا طبقہ اس خوش فہمی میں مبتلا رہتا ہے کہ ان کی تصانیف اور شاعری کافی معیاری ہیں جس میں وہ  ’تو میرا حاجی بگویم۔ من تورا حاجی بگو‘ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک محفل ایسی بھی ہوتی ہے جس میں چند نامور شاعر اور ادیب کی موجودگی ہوتی ہے اور اس میں ہر طرح کے ادیب اور شعرا شامل ہوتے ہیں۔ جس میں نامور شاعر یا ادیب منہ لٹکائے لوگوں کو گھورتا رہتا ہے اور اردو زبان کے متعلق منفی بات کہہ کر لوگوں کو حیراان و پریشان کر کے چلا جاتا ہے۔ اورایک محفل ایسی بھی ہوتی ہے جسے ہم  فری فور آل یعنی سب پڑھے اور سنائے والے لوگ موجودہوتے ہیں۔ اسٹیج پر موجود ادیب و شاعر کے ساتھ ساتھ سامعین بھی کلام سنانے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔

ان ہی تنظیموں میں ’اردو تحریک‘ ایک ایسی تنظیم تھی جس کے بانی داکٹر عبدالغفار عزم تھے جن کی نگرانی میں ہر مہینے ایک ادبی نشست کا اہتمام لندن یونورسیٹی (سواس) میں ہوتا تھا۔مرحوم ڈاکٹر عزم کافی تیکھے مزاج کے انسان تھے اور انہوں نے اپنی نشست میں اپنے ایک اصول کو قائم کیا تھا کہ مشاعرے کی صدارت وہ خود کیا کرتے تھے اور مشاعرے کی شروعات بھی صدر کے کلام سے ہوتی تھی۔ دراصل صدر کے پہلے کلام پڑھنے کا اندازہ مجھے اس بات سے ہوا کہ مشاعرے کے اختتام پر لوگ غائب ہوجاتے تھے اور دوسری بات یہ تھی کہ یونیوسٹی کا سیکورٹی اسٹاف ٹھیک رات نو بجتے آدھمکتا تھا۔ تبھی مجھے مرحوم ڈاکٹر عزم کی ہنر مندی کا علم ہوا۔تاہم مرحوم ڈاکٹر عزم مبارک باد کے مستحق ہیں جنہوں نے اردو تحریک کے ذریعے لندن میں ایک عرصے تک اردو کی کامیاب محفل کو قائم و دائم رکھا۔

ایک عرصے کے بعد مجھے سنیچر 25جون کو معروف شاعر و ادیب محترم سلطان صابری کی کتاب “روح کی زندگی “کی تقریب رونمائی اور مشاعرے میں شرکت کرنے کا موقعہ ملا۔یہ پروگرام لندن کے اسٹریتھم علاقے کے ایک چرچ کے حال میں ہوا جس میں لگ بھگ چالیس لوگوں نے شرکت کی۔افسوس کا مقام یہ تھا کہ جتنی کتابیں میز پر سجا کررکھی گئی تھیں اس سے کم سامعین ہال میں موجود تھے۔ جس سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ لندن شاید اب اردو کا تیسرا مرکز نہیں رہا اور اردو کی محفلیں اب کمزور ہوتی جارہی ہیں۔ تاہم اس سے قبل “انجمن ترقی اردو خواتین برطانیہ “کا بھی پوسٹر سوشل میڈیا پر میری نظروں سے گزرا۔مجھے یاد ہے کہ اس انجمن کی بانی محترمہ بلقیس درانی تھیں جنہوں نے اس کی نشو نما میں اہم رول ادا کیا تھا اور کئی برسوں تک برطانیہ کی عام خواتین اور اردو ادیبوں اور شاعرہ کی حوصلہ افزائی کی تھی۔مجھے اس پروگرام کی تصاویر اور رپورٹیں سوشل میڈیا پر نظر آئیں،جن میں بدقسمتی سے صرف ” فرسٹ کلاس ” سمجھے جانے والے ادیبوں اور شعرا کو مدعو کیاگیا تھا۔جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ بلقیس درانی کے برطانیہ کی عام خواتین کی نمائندگی کے خواب کو نظر انداز کر دیاگیاہے۔

مجھے پچھلے بائیس برسوں میں متعدد محفلوں اور انجمنوں میں شرکت کا موقع ملاہے۔ برطانیہ میں مشاعرہ نہایت مقبول ہے اور لگ بھگ ہر ہفتہ نہیں تو ہر مہینہ ایک مشاعرہ کہیں نہ کہیں منعقد ہوتا رہتا ہے۔ پچھلے کچھ برسوں میں عا لمی کانفرنسیں بھی منعقد ہوئیں لیکن ان سے کوئی ٹھوس بات سامنے نہیں آئی۔ یعنی اردو زبان کے مسائل پر باتیں تو ہوئیں مگر خاطرخواہ کوئی نتیجہ بر آمدنہیں ہوا۔اس کے علاوہ اردو ادب کے کچھ رسالے بھی منظرِعام پر آئے تاہم ان کا وجود اردو کے لیے کوئی دیر پا کام انجام نہیں دے سکا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ صحافت و ادب سے نا آشنا یا معمولی سی شُد بد رکھنے والے حضرات مدیر کے منصب پر فائز ہوئے جس کا نتیجہ لاز ماًیہ نکلا کہ رسالے کی اہمیت رفتہ رفتہ ختم ہوگئی ۔

اردو زبان کی برطانیہ میں مقبولیت کا کم ہونا ایک لازمی بات ہے۔ جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ برطانیہ میں اردو زبان ساٹھ اور ستر کی دہائی میں جن ادیبوں کی بدولت مقبول ہوئی تھی ان کے گزرجانے کے بعد دھیرے دھیرے کمزور ہو رہی ہے۔ دوسری طرف یہ زبان ایک نئے انداز میں نئی نسل کے درمیان اپنا قدم بھی جما رہی ہے۔اس کے علاوہ اب تک ہر سال اردو بولنے والے لوگ ایک خاص تعداد میں ہجرت کرکے بر طانیہ کی سر زمین پر آباد ہوتے جارہے ہیں اور انھیں کے سبب روز مرہ کی بول چال اور درس و تدریس کی ضروریات کے لحاظ سے اردو زبان کی فطری نشو و نما بھی غیر شعوری طور سے عمل میں آتی ہے۔ان سارے مسائل کے باوجود برطانیہ میں اردو کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ نہ صرف اس کی چاشنی اور اس کا حُسن ہے بلکہ اس میں پنہاں انسانیت کا پیام ہے۔جو برطانیہ کے عام لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کرتا ہے۔

Leave a Reply