You are currently viewing ابراہیم علیہ السلام کی کہانی، قرآن کی زبانی

ابراہیم علیہ السلام کی کہانی، قرآن کی زبانی

قرآن میں ابراہیم علیہ اسلام کے حوالے سے 73بار ان کا ذکر آیا ہے اور درجنوں قصے بیان کئے گئے ہیں۔ قرآن کریم نے ابراہیم علیہ السلام کی حکمت، بہادری، اللہ سے محبت اور انسانی ترقی کی لگن کے بارے میں ان کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔

ابراہیم علیہ السلام کی زندگی اور جذبہ قربانی اللہ سے محبت کا سب سے عمدہ مثال پیش کرتی ہے۔ جس میں انہوں نے ایک خدا کو ماننے کی بات کہی تھی اور بت پرستی کو مسترد کیا تھا۔ ان باتوں کے علاوہ ابراہیم علیہ السلام کو اپنے پیارے بیٹے کی جان اللہ کی راہ میں قربان کرنے کی ہدایت بھی ایک بہترین مثال ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قصہ قرآن مجید میں دس مقامات پر آیا ہے۔ میں یہ حوالہ جات  آپ کے لیے پیش کر رہا ہوں تاکہ آپ خود دیکھیں اور پڑھیں۔ ابراہیم کا تعارف ہے (بقرۃ:  129 -134اور نحل(120-123ابراہیم اپنے باپ اور اپنی قوم سے بحث کرتا ہے (انبیاء:(51-65۔ ابراہیم نے اپنے لوگوں کے عقائد کو چیلنج کیا) الانعام:(74-84۔ نمرود کے ساتھ ابراہیم کی گفتگو (بقرۃ:258)۔ ابراہیم کو ملامت کر کے آگ میں ڈالا گیا (انبیاء:68-70)۔ ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ انہیں قیامت کی یقین دہانی دے(بقرۃ:260)۔ ابراہیم کی زیارت فرشتے کرتے ہیں (ھود:69-76)۔ ابراہیم کعبہ کی تعمیر کرتا ہے اور ایک خاص رسول کے لیے دعا کرتا ہے(بقرۃ:124-126)۔ ابراہیم کی خصوصی دعا(ابراہیم:35-41)۔ ابراہیم اسماعیل کو قربان کرنے کی تیاری کر رہے ہیں (صا فات:99-112)۔

ابراہیم علیہ السلام کی پیدائش آج سے 4000 سال قبل آج کے ملک عراق میں ہوئی تھی۔ اس  سے قبل اس علاقے کا نام چالڈین سلطنت کے نام سے جانا جاتا تھا۔ جہاں اُور کے مقام پر ان کی پرورش ہوئی تھی جو کہ آج کل عراق کا شہر موصل کہلاتا ہے۔ اس شہر کے لوگ اُن دنوں سورج، چاند اور ستاروں کی عبادت کرتے تھے اور وہ اس بات پر یقین کرتے تھے کہ انسانی منزل پر مرحومین کے جسم کا اچھا خاصا اثر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ لوگ لکڑی، پتھر اور کسی بھی دھات کے بنے ہوئے مورتی کی بھی عبادت کرتے تھے۔ یہ ساری چیزیں لوگوں کے گھروں میں خدا کا درجہ رکھتے تھے اور لوگ ان چیزوں کی روزانہ عبادت کرتے اور یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ ان کے خاندان اور شہر میں اچھی صحت اور قسمت کو سنوارنے کا یہ بہترین ذریعہ ہے۔

ابراہیم علیہ السلام کے توحید کے پیغام کو ان کے گھر والوں نے مسترد کردیا تھا۔ اس کے باوجود انہوں نے خاندان والوں کا خیال نہ چھوڑا اور نہ ہی ان کی عزت میں کوئی کمی آنے دی۔ جوانی کے دنوں سے ابراہیم علیہ السلام نے ایک خدا کا تصور برقرار رکھا تھا اور ہمیشہ بت پرستی کو مسترد کیا تھا۔ دراصل قرآن کریم اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ کس طرح ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد، خاندان والوں اور اپنے ارد گرد لوگوں کو چیلنج کیا تھا اور یہی نہیں انہوں نے نمرود بادشاہ سے بھی بت پرستی پر بحث کی تھی۔ اس حوالے سے قرآن کے سورۃ البقرۃ: 258 آیت میں اللہ نے فرمایا کہ (اے حبیب!) کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اس وجہ سے کہ اللہ نے اسے سلطنت دی تھی ابراہیم(علیہ السلام)سے (خود) اپنے رب (ہی) کے بارے میں جھگڑا کرنے لگا۔ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا:میرا رب وہ ہے جو زندہ (بھی) کرتا ہے اور مارتا (بھی) ہے۔ تو (جواباّ) کہنے لگا:میں (بھی) زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں۔ ابراہیم(علیہ السلام) نے کہا: بیشک اللہ سورج کو مشرق کی طرف سے نکالتا ہے تو اسے مغرب کی طرف سے نکال لا! سو وہ کافر دہشت زدہ ہوگیا۔ اور اللہ ظالم قوم کو حق کی راہ نہیں دکھاتا۔

بت پرستوں کو ابراہیم علیہ السلام کے ایک خدا کا پیغام کافی ناگوار گزرنے لگا اور انہوں نے سزا کے طور پر انہیں زندہ جلانے کا ارادہ کیا۔ قرآن کریم کے سورۃ البقرۃ: 66-68 آیات میں اس بات کا ذکر اس طرح ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: پھر کیا تم اللہ کو چھوڑ کر ان (مورتیوں) کو پوجتے ہو جو نہ تمہیں کچھ نفع دے سکتی ہیں اور نہ تمہیں نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ تف ہے تم پر (بھی) اور ان (بتوں) پر(۰بھی) جنہیں تم اللہ کے سوا پوجتے ہو، تو کیا تم عقل نہیں رکھتے۔ وہ بولے:اس کو جلا دو اور اپنے (تباہ حال) معبودوں کی مدد کرو اگر تم (کچھ) کرنے والے ہو۔ ہم نے فرمایا: اے آگ! تو ابراہیمعلیہ السلام پر ٹھنڈی اور سراپا سلامتی ہو جا۔تاہم اس کے باوجود بت پرستوں کا عقیدہ اپنی جگہ اڑا رہا اور آخر کار ابراہیم علیہ السلام عاجز آکر اُور سے اپنی بیوی،کچھ حمایتی اور اپنے ایک وفادار بھتیجے کے ہمراہ شام، مصر ہوتے ہوئے مکہ پہنچے۔ یہاں بھی ان کا ایک ہی مقصد تھا کہ ایک خدا کو ماننا اور صرف اسی کی عبادت کرنا۔

ان تمام مشکلات کے باوجودابراہیم علیہ السلام اپنے مشن میں لگے رہیں اور ان کی عمر بھی کافی ہوگئی تھی۔ اس وقت ان کو کوئی اولاد نہیں تھی۔ انہوں نے خدا تعالیٰ سے ایک بچے کی خواہش کی اور اس طرح اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کی دعا قبول کی اور اسماعیل دنیا میں آئے۔ اللہ نے قرآن کے سورۃ الصافات کے آیات 99-100میں فرمایا ہے کہ پھر ابراہیم علیہ السلام نے کہا: میں (ہجرت کر کے) اپنے رب کی طرف جانے والا ہوں وہ مجھے ضرور راستہ دکھائے گا (وہ ملکِ شام کی طرف ہجرت فرما گئے) پھر ارضِ مقدس میں پہنچ کر دعا کی: اے میرے رب! صالحین میں سے مجھے ایک (فرزند) عطا فرما۔

جب ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے یہ خواب دکھایا کہ قربانی کرو تو انہوں نے دوسرے دن ایک سو بکروں کی قربانی کی۔ اس کے بعد پھر یہی خواب دوبارہ دیکھا تو انہوں نے اس بار ایک سو اونٹوں کی قربانی دی۔ پھر تیسری رات کو اسی طرح کا خواب ابراہیم علیہ السلام نے دیکھا تو اس بار انہوں نے کہا یا اللہ میں دو روز سے لگاتار تیرے حکم کے مطابق قربانی کر رہا ہوں تب یہ فرمان جاری ہوا کہ اب تو اپنے پیارے بیٹے اسماعیل کی قربانی کر۔

قرآن کریم کے سورۃ الصافات کے آیات 101-102میں اللہ نے فرمایا کہ پس ہم نے انہیں بڑے بُرد بار بیٹے اسماعیل علیہ السلام ان کے ساتھ دوڑ کر چل سکنے (کی عمر) کو پہنچ گیا تو (ابراہیم علیہ السلام نے) فرمایا: اے میرے بیٹے! میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں سو غور کرو کہ تمہاری کیا رائے ہے۔ (اسماعیل علیہ السلام نے) کہا:اباّ جان! وہ کام (فوراً) کر ڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے۔ اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ اس وقت اسماعیل تیرہ یا چودہ سال کے تھے۔ اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام نے چھری کو دھار دی اور اپنے بیٹے اسماعیل کے ہاتھ اور پیر کو باندھ کر زمین پر لٹا دیا۔ تاہم جب ابراہیم علیہ السلام بیٹے کے گردن پر چھری رکھنے والے تھے تو آواز آتی ہے کہ ٹھہر جا! ابراہیم میں یہ دیکھنا چاہتا تھا اور یہ دنیا کو یہ دکھانا چاہتا تھا کہ تو مجھ سے کتنا محبت کرتا ہے اور میرے واسطے تو کسی قسم کی قربانی کرنے کو تیار ہے۔ اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل کو زمین سے اٹھا کر بوسہ دیا۔ اسماعیل نے بھی اللہ کی یہ آواز سنی تھی کہ اے ابراہیم تم نے اپنے خواب پورے کئے۔ اس بات کا بھی ذکر آیا ہے کہ شیطان نے اسماعیل اور ان کی والدہ حاجرہ کو کافی بہکانے کی کوشش کی او ر اسی واسطے آج بھی لوگ حج کے دوران اس جگہ پر پتھر مارتے ہیں۔

 اس کے بعد ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر شروع کی۔ قرآن کریم کے سورۃالبقرۃ کے آیات 127-128میں اللہ فرماتا ہے کہ اور (یاد کرو) جب ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) خانہ کعبہ کی بنیادیں اٹھا رہے تھے (تو دونوں دعا کر رہے تھے) اے ہمارے رب! تو ہم سے (بہ خدمت) قبول فرما لے۔ بیشک تو خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔ اے ہمارے رب! ہم دونوں کو اپنے حکم کے سامنے جھکنے والا بنا اور ہماری اولاد سے بھی ایک امت کو خاص اپنا تابع فرمان بنا اور ہمیں ہماری عبادت (اور حج کے) قواعد بتا دے اور ہم پر (رحمت و مغفرت) کی نظر فرما۔ بیشک تو ہی بہت توبہ قبول فرمانے والا مہربان ہے۔

اس ہر دل عزیز قربانی سے ہمیں چار سبق حاصل ہوئیں ہیں۔ پہلا اختلافِ نظرہے: یہ درست ہے کہ ہر انسان زبان، ثقافت اور نسل کے اعتبار سے ایک دوسرے سے جداگانہ ہے۔ لیکن یہ سارے آدم اور حوّا کے بچے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم سارے برابر ہیں۔ یہودی ابراہیم علیہ السلام کو اپنا باپ مانتے ہیں اور اس سے یہ پیغام ملتا ہے کہ ہم سب کو ایک ساتھ رہنا چاہیے۔ جبب ہمارے پیارے نبی محمد ﷺ مدینہ تشریف لائے تو انہوں نے دیکھا کہ مدینہ میں یہودی، مشرکین اور مسلمان سب ایک ساتھ رہ رہے تھے۔ محمد ﷺ نے ایک قانونی دستاویز تیار کروائی جو صحفت المدینہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ مدینہ کا آئین تھا جس میں حضور نے یہ لکھا کہ یہودی، مشرکین اور مسلمان ایک ساتھ رہیں گے۔

دوسرا بچوں کی اچھی پرورش کرناہے: جب ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل سے پوچھا، اے اسماعیل میرے اس خواب کے بارے میں تیری کیا رائے ہے؟ تو اسماعیل نے کہا اے میرے پیارے اباّ آپ وہی کیجئے جو اللہ کا حکم ہے۔ اسماعیل کی پرورش ابراہیم علیہ السلام نے خود کی تھی جن کے بارے میں قرآن نے کہا ہے کہ وہ نرم گو،پاک،خوش اخلاق اور نیک انسان تھے۔ تیسرا حوصلہ ہے: قربانی ایک حوصلہ ہے جو ہم اللہ کی راہ میں انجام دیتے ہیں۔ پیارے نبی محمد ﷺ اکثر ہا خطرناک حادثات سے دوچار ہوجاتے تھے لیکن وہ حالات سے کبھی گھبراتے نہیں تھے بلکہ وہ ان حالات کا مقابلہ کرتے اور صبر کرتے۔ اس کی سب سے اچھی مثال مکہ کی ہے جب بت پرستوں نے محمد ﷺ کو چیلنج کیا اور ان کے خلاف گمراہ کن باتیں کی تو ہمارے نبی نے اسے نظر انداز کیا اور ان کے ظلم کو سہتے رہیں۔ان تمام باتوں کے باوجود پیارے نبی نے اپنا حوصلہ نہیں چھوڑا اور مکہ کے جاہل،گھمنڈی بت پرستوں کے سامنے اپنا سر نہیں جھکایا۔ اورچوتھا صبر ہے: صبر نہایت ہی مشکل کام ہے جس پر زیادہ تر لوگ عمل نہیں کر پاتے ہیں۔ اس عمل میں پر سکون اور حالات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر اپنی باری کے جلدی آنے کا انتظار، صبح کو عبادت کے لئے جاگنا، مسجد کو عبادت کے لئے جانا، روزہ رکھنا،اور دنیاوی آرائیش سے پرہیز کرنا۔

حج بلا شبہ ایک مسلمان کے لیے اپنی زندگی کا سب سے بڑا سفر ہے۔ یہ ایک قربانی کا سفر، خود کی دریافت، اور سب سے بڑھ کر اللہ کی بندگی اور اطاعت کا سفر ہے۔اور اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ یہ سب کہاں سے شروع ہوا تو یہ سب کچھ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں شروع ہوتا ہے۔ اللہ نے ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ اپنی بیوی حجر اور اپنے نوزائیدہ بیٹے اسماعیل کے ساتھ مکہ کے بنجر صحرائی میدانوں میں جا کر رہیں۔

ابراہیم علیہ السلام کی اللہ کے لیے لگن اور انسانیت کی خدمت کی زندگی ایک مشعل راہ ہے۔ رب نے ان کی کاوشوں کو قبول کیا اور ان کی اولاد کی تعداد میں اضافہ کر کے انہیں اجر دیا اور ان کے مشن کو آج تک زندہ رکھا ہے۔ چار ہزار سال سے زیادہ عرصے سے ابراہیم علیہ السلام نے پوری دنیا کے لوگوں کو تحریک فراہم کی ہے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ قربانی کے اس عظیم واقعہ اور جذبہ کے ساتھ ہم تمام مسلمان اس پر عمل کریں اور ایک اچھے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نیک اور اخلاق مند انسان بھی بنیں۔آئیے ہم اُس خوبصورت مثال کی پیروی کرنے کا عزم کریں۔

Leave a Reply