You are currently viewing ابراہیم علیہ السلام کی زندگی، قرآن کے حوالے سے

ابراہیم علیہ السلام کی زندگی، قرآن کے حوالے سے

ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے پیغمبر تھے جن کو اللہ نے نبی پیغمبر ابو الانبیا، خلیل اللہ، امام الناس اور حنیف کہہ کر پکارا ہے۔ قرآن مجید حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں بلند مرتبہ بولتا ہے اور ان کی جرات، عقیدت اور دوسروں کی دیکھ بھال کی درجن بھر کہانیاں سناتا ہے۔

ابراہیم علیہ السلام اقلیم صوبہ کے بابل کے مقام کوثا میں پیدا ہوئے اوران کی والدہ کا نام نونا تھا۔ایک اور روایت ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کلدانیہ کے شہر اُر میں پیدا ہوئے۔۔ وہ بابل کی تہذیب سے وابستہ لوگوں کے ساتھ رہتے تھے اور ان کے شہنشاہ کو للکارتے تھے۔انہوں نے مصر کا سفر کیا اور کنعانیوں (آج کے فلسطینیوں، لبنانیوں اور شامیوں) کے حکمرانوں کا سامنا کیا۔

قرآن ان کے کردار، حکمت، بہادری، خدا سے محبت اور انسانیت کی کامیابی کے لگن کو  خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ عہد نامہ قدیم کی کتاب میں ابراہیم علیہ السلام کی تفصیلی سیرت پیش کی گئی ہے اور قرآن کے مفسرین نے اس کو قرآنی نظریات کی وضاحت کے لئے آزادانہ طور پر استعمال کیا ہے۔ ان کی میراث دلیری کے ساتھ ایک خدا پر اعتقاد کی تبلیغ  ہے اور توحید اور کافروں کے بتوں سے دور کرتی ہے۔ انہوں نے اللہ کی محبت کے لئے ہر چیز قربان کر دی ہے۔ جس کی مثال اپنے پیارے بیٹے کی قربانی  ہے۔ آئیے ہم ابراہیم علیہ السلام کی حیرت انگیز زندگی کی کہانی، عقیدت اور قربانی کا جائزہ لیتے ہیں۔

قرآن مجید کی تقریباً بائیس سورتوں میں حضرت ابراہیم کا ذکر آتا ہے اور دس مقامات پر ابراہیم علیہ السلام کی کہانی بیان کی گئی ہے۔میں ان حوالوں کو شامل کر رہا ہوں تاکہ آپ انہیں دیکھیں، سمجھیں اور خود اس کا مطالعہ کریں۔چونکہ ہم حج کے مہینے میں ہیں اور اگلے چار ہفتوں میں ہم اسے اسی طرح سمجھنے اور پڑھنے کی کوشش کریں گے،کیا ہم اس چھوٹے سے چیلنج کا مقابلہ کر رہے ہیں؟

ابراہیم علیہ السلام متعارف ہورہے ہیں (بقرہ: 129-134 اور نہل: 120-123) ابراہیم علیہ السلام اپنے والد اور اس کے لوگوں سے بحث کرتے)انبیا:51-65)ابراہیم علیہ السلام اپنے لوگوں کے اعتقادات کو چیلنج کرتے ہیں۔(انعم:74-8484) ابراہیم علیہ السلام کی گفتگو نمرود کے ساتھ(بقرہ:258)ابراہیم علیہ السلام کی مذمت کی جاتی ہے اور انہیں آگ میں پھینک دیا جاتا ہے(عنبیہ:68-70)ابراہیم علیہ السلام اللہ سے التجا کرتے ہیں کہ وہ انہیں قیامت کی یقین دہانی کرائے(بقرہ: 260) ابراہیم علیہ السلام فرشتوں کے ساتھ ملتے ہیں (ہود:69-76) ابراہیم علیہ السلام نے خصوصی پیغام کے لئے کعبہ بنایا اور دعا کیا (بقرہ: ابراہیم: 35-41) ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربانی کرنے کی تیاری کی (صفت: 99-112)۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام تقریباً 4000سال قبل اس دور میں رہے جسے ہم عراق کہتے ہیں۔ ان دنوں یہ کلدی سلطنت کے نام سے مشہور تھا۔ جہاں موجودہ شہر موصل کے قریب اُرمیں پلے بڑھے تھے۔ یہ شہر ستاروں، چاند، سورج کی پوجا کے لئے ایک مشہور مرکز تھا اور ان کا خیال تھا کہ آسمانی  مخلوقات انسانی مقدر پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ لکڑی، پتھر یا کسی دوسرے مواد سے بنے بتوں کی پوجا کرتے تھے جس پر وہ اپنا ہاتھ رکھ سکتے تھے۔گھریلو دیوتاتھے  ان کی  روزمرہ عبادت کا ایک لازمی حصہ تھا۔ انہیں اس بات کا یقین تھا کہ اس سے انہیں بہتر صحت، خوش قسمتی، مضبوط خاندان اور ایک محفوظ شہر حاصل ہوا ہے۔ابراہیم علیہ السلام کا کنبہ بتوں کی پوجا اور بتوں کی تیاری میں سب سے آگے تھا۔

ابراہیم علیہ السلام نے بادشاہ سے بحث کی۔ اس بات کو جاننے کے لئے سورہ بقرہ کا مطالعہ کرنا اہم ہوگا۔ ابراہیم علیہ السلام اپنی جوانی سے ہی ایک خدا پر یقین رکھتے تھے اور بتوں کی پوجا کو مسترد کرتے تھے۔ قرآن مجید نے اس کے بارے میں اپنے والد، کنبہ، لوگوں کو چیلنج کرنے اور شہنشاہ نمرود کے ساتھ بحث کا تذکرہ کیا ہے۔ ’اے نبی، کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو اپنے رب کے بارے میں ابراہیم کے ساتھ جھگڑا کرتا تھا، کیوں کہ اللہ نے اسے حکمرانی کی طاقت دی تھی۔ جب ابراہیم نے کہا، یہ میرا رب ہے، جو زندگی اور موت دیتا ہے، تو اس نے کہا کہ میں بھی زندگی اور موت دیتا ہوں۔ تو ابراہیم نے کہاکہ ا للہ مشرق سے سورج لاتا ہے، لہذ تم  مغرب سے لاؤ۔ کافر ابراہیم علیہ السلام کی بات سن کرگھبرایا ہوا تھا: خدا بدکاروں کو ہدایت نہیں دیتا (بقرہ: 258)۔ انہوں نے ان کی بت پرستی اور خدا کے ساتھ بتوں کو جوڑنے کی مذمت کی۔

قرآن مجید میں ابراہیم علیہ السلام کا اللہ کے لئے جذبہ اور بتوں سے دور رہنے، انہوں نے کس طرح اسے شکست دی،  کا بیان کیا گیا ہے۔تم اللہ کی ذات کے سوا ایسی عبادت کس طرح کر سکتے ہو،جس سے نہ تو کوئی فائدہ ہو اور نہ ہی کوئی نقصان ہو۔ خدا کی بجائے تم اور ان چیزوں پر شرم کرو جن کی تم عبادت کرتے ہو۔ کیا آپ کو کچھ سمجھ نہیں ہے؟ انہوں نے کہا، اسے جلادو اور اپنے خدا کا بدلہ لو اگر تم صحیح کام کرنے جا رہے ہو۔(انبیا:66-68)۔ اس سے لوگوں کی شدید مخالفت پیدا ہوگئی اور حکام نے انہیں آگ میں  ڈال کر سزا دینے کا فیصلہ کیا،لیکن اللہ نے انہیں بچا لیا۔ ’ہم نے کہا، ابراہیم کے لئے آگ ٹھنڈی ہوجائے اور وہ سلامت رہے‘۔(انبیا:69)۔یہ اس کی سچائی کا ایک معجزہ اور ثبوت تھا لیکن افسوس کہ مشرکین نے انہیں  تسلیم  نہیں کیا۔

ابراہیم علیہ السلام ہجرت کر گئے: ابراہیم علیہ السلام کی امید ختم ہوگئی تھی کہ وہ یقین کریں گے، وہ ضدی اور مغرور تھے۔چنانچہ، وہ اپنی بیوی اور بھتیجے لوت کے ساتھ اُر سے ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا۔ شام سے ہوتے ہوئے کانان موجودہ فلسطین اور بعد ازاں مصر پہنچے۔ابراہیم علیہ السلام نے بڑے پیمانے  پر سفر کیا اور تقریباً خانہ بدوش کی زندگی بسر کی۔ان کا مقصد اپنے رب کو خوش کرنا اور اللہ کی وحدانیت کے پیغام کو عام کرنا تھا۔ قرآن مجید نے خوبصورت الفاظوں میں ابراہیم علیہ السلام کے عہد، عقیدت اور خدا سے محبت کو بیان کیا ہے۔’جب ابراہیم کے رب نے ان کو متعدد آزمائشوں کا تجربہ کیا، جو انہوں نے پورا کیاتو اس نے کہا،’میں آپ کو لوگوں کا قائد بناؤں گا۔‘ ابراہیم نے پوچھا، ’اور کیا تم میری اولاد میں سے رہنما بناؤ گے‘؟ اللہ نے جواب دیا،’میرا وعدہ برائی کرنے والوں کے لئے نہیں آتا ہے‘۔ (بقرہ:124)۔

ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے ہمیں مندرجہ ذیل اخلاقی سبق حاصل ہوتا ہے:

 بچوں میں اچھی خصوصیات کی پرورش اور نشونما: ابراہیم علیہ السلام نے اپنے نو عمر بیٹے اسماعیل کواپنا خواب سنانے کے بعد پوچھا، ’تم کیا سمجھتے ہو؟‘ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل کواس فیصلے کا حصہ بناتے ہوئے بیٹے کی رائے مانگی۔ جس کے فوراً بعداسماعیل نے ایک سمجھدارجواب دیاکہ ’بابا، جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ویسا ہی کرے، آپ مجھے صابر دیکھیں گے‘۔حوصلہ رکھیں:جرات، خطرہ اورخوف کا سامنا کرنے اور ان خطرات کو اٹھانے کی اہلیت رکھنا بہت بڑی بات ہے۔ جو بزدلی کے برعکس ہے۔ مشکلات برداشت کرتے ہوئے خود کو خطرے میں ڈال کر اہم  مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بہادر لوگ اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر حیرت انگیز کام انجام دے سکتے ہیں۔

صبر کرو: صبر کا مطلب یہ ہے کہ مشکل وقت پر سکون سے رہیں اور وقت کے بدلنے کا انتظار کریں۔ یہ مشکلات برداشت کرنے کا فن ہے۔ ایک صبر کرنے والا شخص اپنی باری کا انتظار کر تاہے۔ جس کی مثال اس شخص کی ہے جوصبح سویرے نماز کے لئے اٹھتا ہے، مسجد جاتا ہے، روزہ رکھتا ہے اور برائی سے بچتا ہے۔

آج میں نے ابراہیم علیہ السلام کی زندگی قرآن کے حوالے سے لکھ کر اس بات کا جائزہ لینا چاہا ہے کہ کیا ہم نے ابراہیم علیہ السلام کی زندگی سے کوئی سبق حاصل کیا ہے۔ چار ہزار سال زیادہ عرصہ سے ابراہیم علیہ السلام نے پوری دنیا کے  رہنما ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کی اللہ سے عقیدت اور انسانیت کی خدمت کی زندگی ایک روشنی ہے۔ اللہ نے ان کی کاوشوں کو قبول کیا اور ا ن سے بچوں اور نسل کو بڑھاتے ہوئے ان کے مقصد کو آج تک زندہ رکھے ہوئے ہے۔آئیے ہم ان کی خوبصورت مثال کی پیروی کرنے کا عزم کریں۔

Leave a Reply