آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی میں طبقاتی تقسیم

آکسفورڈ اور کیمبرج دو ایسی یونیورسیٹیاں ہیں جن کا نام ذہن میں آتے ہی انسان یہی سوچتا ہے کہ یہاں سے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء ایک اعلیٰ اور ذہین لیاقت کے مالک ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے بھی نہیں ہے کیونکہ برسوں سے ان قدیم یونیورسیٹیوں سے تعلیم حاصل کرنے والے ہونہار طالب علموں نے اپنے اپنے شعبے میں نام روشن کرکے اس بات کو ثابت کیا ہے۔ اس کے علاوہ ان یونیورسیٹیوں نے اب تک اپنے تعلیمی معیار کو برقرار رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے اب بھی ان یونیورسیٹیوں میں داخلہ لینا آسان نہیں ہو تا۔ اس کے علاوہ دونوں یونیورسیٹیوں کی عمارتیں اور اس کے فیکلٹی کو دیکھنے کے لئے ہر سال ہزاروں لوگ دنیا بھر سے آتے ہیں۔

ویسے تو آکسفورڈ یونیورسٹی کی بنیاد کی تاریخ کہیں نہیں ملتی ہے لیکن کہا جاتاہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھانے کا باقاعدہ آغاز 1096 میں شروع ہو ا تھا۔ جبکہ کیمبرج یونیورسٹی کی بنیا د 1209  میں رکھی گئےی تھی۔ ان دونوں یونیورسیٹیوں نے قیام سے لے کر اب تک اپنے تعلیمی معیار کو کیسے بر قرار رکھا ہے یہ ایک قابلِ غور بات ہے۔ تاہم ایک بات تو سچ ہے کہ دنیا کی تمام یونیورسیٹیوں کے مقابلے میں ان دونوں یونیورسیٹیوں نے اپنے تعلیمی معیار اور وقار کو ریسرچ اور تجربہ سے قائم و دائم رکھا ہے۔ لیکن آج ہم ان تمام باتوں سے ہٹ کر آپ کو ان باتوں سے آگاہ کریں گے جس کا شاید ہمیں اور آپ کو پہلے علم نہیں تھا۔ حال ہی میں ایک رپورٹ جاری ہوئی ہے جس سے یہ پتہ چلا ہے کہ ان یونیورسیٹیوں میں طلباء کے داخلے میں سماجی طبقات کا کافی اثر دیکھا جارہا ہے۔ پچھلے دنوں آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسیٹیوں نے طلباء کے داخلہ کے ڈاٹا کو جاری کیا تھا۔ جس سے یہ پتہ چلا کہ اب بھی ان دونوں یونیورسیٹیوں میں زیادہ تر ان لوگوں کے بچّوں کا داخلہ ہو رہا ہے جو پیشے سے یا تو اعلیٰ عہدہ پر فائز ہیں یا وہ کسی کمپنی کے منیجر ہیں۔ ان میں زیادہ تر یا تو وکلاء ہیں یا پھر ڈاکٹرہیں۔ اس کے علاوہ ان یونیورسیٹیوں میں داخلہ لینے والے طلباء میں شمالی انگلینڈ کے طلباء کی تعداد کافی کم ہے ۔ جو کہ ایک حیران کن بات ہے۔ ان طلباء میں زیادہ تر کا تعلق لندن اور اس کے آس پاس کے معروف اور امیر ترین علاقوں سے ہے۔ حالانکہ دونوں یونیورسیٹیاں  داخلے کے دائرے کوعام طالب علموں میں مقبول کرنے کے لئے لگ بھگ 1635ملین پونڈ ہر سال خرچ کرتی ہیں۔

کیمبر ج یونیورسٹی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی کے داخلے کی بنیاد تعلیمی معیار ہے لیکن وہ طلباء جو غریب یا جن کے والدین کی آمدنی کم ہوتی ہے ان کا تعلیمی نتیجہ کمزور ہو تا ہے جس سے انہیں یونیورسٹی میں داخلہ دینا ایک ناممکن بات ہے۔ وہیں آکسفورڈ یونیورسٹی کے ترجمان کا یہ کہنا ہے کہ اس بات کا احساس ہے کہ علاقائی طور پر آکسفورڈ میں داخلہ لینے والے طلباء زیادہ تر انگلینڈ کے جنوب یا لندن کے ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ شمال کے علاقوں میں اعلیٰ اور معیاری اسکولوں کی کمی پائی جاتی ہے ۔ جس کی وجہ سے وہاں کے طالب علموں کا داخلہ بمشکل ہوتا ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس بات پر دھیان دینے کی اشد ضرورت ہے کہ انگلینڈ کے بقیہ علاقوں سے طالب علموں کا داخلہ کیوں نہیں ہو رہا ہے۔ تاہم اس کام کو آگے بڑھانے اور سماجی طبقات کی دوری کو کم کرنے کے لئے ہم سبھی کو مل جل کر کام کرنا ہوگا۔ کیونکہ ملک کو چلانے کے لئے یہاں کے طالب علموں کو ہمیشہ ترجیح دی جاتی ہے۔

یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ انگلینڈ کے سب سے زیادہ وزیر اعظم ، سینئر جج، سرکاری ملازمین اور میڈیا کے معروف لوگوں کا تعلق آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسیٹیوں سے رہا ہے۔ جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ ان یونیورسیٹیوں میں داخلہ لینا کیوں مشکل ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ان یونیورسیٹیوں نے تعلیم کے معیار کو برقرار رکھنے کے لئے اپنے داخلے کے سسٹم پر پورا زور دیا ہے۔ تنھی تو ان یونیورسیٹیوں سے زیادہ تر طلباء ملک کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہو رہے ہیں۔  رپورٹ کے مطابق دی یونیورسٹی آف کیمبرج نے 2,953 طلباء کو جن کا تعلق انگلینڈ کے دیگر علاقے اور لندن سے ہے انہیں داخلے کی پیشکش کی ہے جبکہ صرف 2,619طلباء کو داخلے کی پیشکش کی گئی ہے جن کا تعلق شمالی انگلینڈ سے ہے ۔ اسی طرح آکسفورڈ یونیورسٹی نے2,812طلباء کو داخلے کی پیشکش کی ہے جن کا تعلق انگلینڈ کے دیگر علاقے اور لندن سے ہے جبکہ شمالی انگلینڈ سے 2,619طلباء کو داخلے کی پیشکش کی گئی ہے۔ اس سے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ شمالی انگلینڈ کے طلباء کے داخلے میں جنوبی انگلینڈ اور لندن کے طلباء کی تعداد کافی زیادہ ہے۔

اس کے علاوہ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسیٹیوں میں اقلیتی طبقہ کے طالب علموں کی بھی کمی پائی جاتی ہے ۔ پچھلے دنوں آکسفورڈ یونیورسٹی کے احاطے میں پہلے افریقی طالب علم کریسچن کول کی یاد میں ایک تختی کو نصب کیا گیا۔ اکیس سالہ کرسچن کول 1873  میں آکسفورڈ میں داخلہ لیا تھا۔ کرسچن کول کا تعلق سئیرا لیون کے شہر واٹر لو سے تھا۔ کرسچن کول نے قانون میں ڈگری حاصل کی تھی اور بعد میں بیرسٹر کا خطاب حاصل کیا تھا۔  اس کے علاوہ ایشیا سے بھی کافی نامور شخصیتوں نے آکسفورڈ اور کیمبرج سے ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں۔ کورنیلیا سورب جی پہلی ہندوستانی خاتون تھیں جنہوں نے 1892  میں بطور خاتون بیچلر آف سِول لاء  کا امتحان آکسفورڈ سے پاس کیا تھا۔ اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں کامیاب ہونے کے بعد خاتون طلباء کو مردوں کے ساتھ امتحان میں بیٹھنے کا موقع ملتا تھا۔ سکھوں کے آخری مہاراجہ دلیپ سنگھ کی دونوں بیٹیاں کیتھرین اور بمبا نے 1890  میں آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کی تھی۔ 1927  میں پٹوڈی کے نواب افتخار علی خان پٹوڈی نے آکسفورڈ سے ڈگری حاصل کی تھی۔ افتخار علی خان پٹوڈی 1946  میں ہندوستان کرکٹ ٹیم کی کپتانی کی تھی۔

ہندوستان کی سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کو آکسفورڈ یونیورسٹی کے داخلے کے امتحان میں ناکامی ہوئی تھی۔ لیکن بعد میں انہیں داخلہ مل گیا تھا۔ 1962  میں سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے ڈی فل مکمل کیا تھا۔ اسی طرح پاکستان کے سابق وزیر اعظم بھٹو اور ان کی بیٹی بینظیر بھٹو نے بھی آکسفورڈ یونیورسٹی سے اپنی ڈگریا ں حاصل کی تھیں۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیور سٹی ایک اعلیٰ اور معتبر یونیورسیٹیاں ہیں۔ جس کی مثال شاید دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ ظاہر سی بات ہے جس یونیورسیٹی کے طلباء دنیا بھر میں اپنی ذہانت اور لیاقت سے اپنے فن کا شاندار مظاہرہ کر رہے ہیں اس سے ہمیں اور آپ کو کوانکار نہیں ہے۔ لیکن ہم اس بات سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ ان یونیور سیٹیوں میں سماج کے ایسے طبقے کے بچّوں کا داخلہ ہو رہا ہے جن کے ماں باپ یا تو دولت مند ہیں یا اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔

مجھے اس بات سے بھی دُکھ ہورہا ہے کہ سماج کے ان طبقوں کے بچّے جن کے ماں باپ معاشی بدحالی کے شکار ہیں اور جو پیشہ سے معمولی ملازم ہیں۔ جنہیں شاید اسی بات سے آکسفورڈ اور کیمبرج میں داخلہ نہیں مل پارہا ہے۔ جو کہ سماجی طبقات اور مساوات کے لئے ایک افسوس ناک بات ہے۔

Leave a Reply