You are currently viewing آؤ رحمتیں سمیٹنے مدینے چلیں

آؤ رحمتیں سمیٹنے مدینے چلیں

جمعہ کی نمازمسجدالحرام میں پڑھنے کے بعد واپس ہوٹل آیا۔ دراصل ہماری ٹور کمپنی نے ہمیں دو بجے تیار رہنے کو کہا تھا کیونکہ ہماری گاڑی آنے والی تھی۔ ہوٹل پہنچ کر ہم نے سامان وغیرہ نیچے لا کر چیک آؤٹ کروا کرہوٹل کے باہر خوبصورت لان میں دیگر عازمین کے ساتھ اپنی گاڑی کا انتظار کرنے لگا۔ ہوٹل کے باہر لان میں عازمین میں سب سے زیادہ انڈونیشیا، ملیشیا اور ترکی کے لوگ نظر آئے۔ جس سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ ان ممالک کے عازمین زیادہ تعداد میں عمرے کے لئے تشریف لاتے ہیں۔ لیکن میں نے اس سے زیادہ تعداد میں پاکستانی عازمین کو بھی حرم شریف میں پایا جو کہ مسجدالحرام کی دوسری جانب سستے ہوٹل میں ٹھہرتے ہیں۔

کئی لوگوں نے مجھے بتایا کہ پاکستان کے غریب لوگ تھوڑی تھوڑی رقم جمع کرکے عمرہ ضرور کرنے آتے ہیں۔ شاید یہ بات سچ ہے کیونکہ جب میں حرم شریف سے باہر نکل کر ان علاقوں میں گیا تو وہاں کافی تعداد میں پاکستانی، بنگلہ دیشی اور ہندوستانیوں کو ہوٹل سے باہر فوٹ پاتھ پر بیٹھے کھانا کھا تے ہوئے یا آپس میں گپ شپ کرتے ہوئے پایا۔ ہماری گاڑی تیزی سے مکّہ چھوڑ کر مدینہ کی طرف رواں دواں تھی۔ دورانِ سفر پاکستانی ڈرائیور عمران نے ہمیں بتایا کہ اگر ہمیں کھجورخریدنی ہے تو وہ ہمیں کھجور کے باغ لے چلیں گے جہاں کئی قسموں کے کھجور مناسب دام میں دستیاب ہیں۔ ڈرائیور عمران کے مشورے سے ہمیں خوشی ہوئی ۔

راستے بھر کبھی ریگستان دکھتا تو کبھی چھوٹے چھوٹے پہاڑ جنہیں دیکھنے کے بعد ہم اس سوچ میں ڈوب جاتے کہ ہمارے آقا محمد ﷺ کی زندگی کتنی سخت ہوگی ۔ ہم مدینہ پہنچنے کی خوشی میں درود شریف پڑھے جارہے تھے۔ آدھا راستہ طے کرنے کے بعد ڈرائیور ہمیں بدر کی زیارت کرانے کے لئے گاڑی کو روکا۔ بدر کے چاروں جانب کئی کئی منزلہ رہائشی مکانات ہیں۔ بدر کی مسجد میں دو رکعت نفل نماز پڑھی اور تھوڑی دور چل کر اس جگہ کی زیارت کی جہاں شہدائے بدر ہیں جو یہاں ابدی نیند سو رہے ہیں۔ نبی اکرم حضرت محمد ﷺ اور صحابہ اکرام جنہوں نے غزوہ بدر میں حصّہ لیا تھا اور مجھے اس میدان میں اپنی موجودگی عطا کر نا تھا۔ اس جنگ میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی مدد و نصرت چاہتا تھا جس کے لئے اللہ نے کفار سے مقابلے کے وقت فرشتوں کو میدان میں بھیجا۔ میدان کو چاروں جانب سے ایک اونچی دیوار نے اپنے حسار میں لیا ہوا ہے۔ شاید یہ دیوار میدان کی حفاظت کے نقطہ نظر سے بنا دی گئی ہے۔ دیوار کے باہر کئی جگہ لوگوں نے اس میدان اور شہداء کی قبروں کی زیارت کرنے کی غرض سے اوپر نیچے کچھ اینٹیں رکھ دی ہیں۔ جن پر چڑھ کر دیوار کے اوپر سے میدان کے اندر کا نظارہ بہ آسانی کیا جاسکتا ہے۔ ہم نے بھی یہی طریقہ اختیا ر کیا۔ دیوار پر رکھی اینٹوں پر چڑھ کر میدانِ بدر میں موجود تاریخی و متبرک ورثے اور شہدائے بدر کی قبروں کی زیارت کی اور انہیں سلام عرض کیا۔

جنگِ بدر پہلی جنگ ہے جو مدینہ کے مسلمانوں اور مکہ قریش قبیلے جو کافر تھے کے درمیان 17مارچ624عیسوی مطابق 17رمضان المبارک 2ہجری کو ہوئی ۔ اس دن کو ’ یوم الفرقان ‘ کہا گیا کیونکہ یہ مسلمانوں اور کفار کے درمیان پہلی جنگ تھی اور مسلمانوں کو فتح و غلبہ دے کر واضح کر دیا گیا کہ اسلام حق ہے اور کفر و شرک باطل ہے۔  ہم تھوڑی دیر بدررک کر مدینہ کے لئے روانہ ہوگئے۔ شام اپنی چادر بچھارہی تھی اور ڈرائیور گاڑی کو تیزی سے بھگا رہا تھا۔ میں بار بار ڈرائیور سے یہی پوچھتا کہ بھائی مدینہ اور کتنی دور ہے۔ ڈرائیور میری بیقراری کو سمجھ بیٹھا تھا اور وہ مجھے یہی کہتا کہ بس اب ہم پہنچ رہے ہیں۔ مدینہ شہر میں داخل ہو تے ہی پورا شہر نور سے نہایا ہوا پایا۔ وعدہ کے مطابق ڈرائیور ہمیں کھجور کے باغ میں لے گیا۔ جہاں ہم نے خاص کر عجوہ کھجور کی خریداری کی۔ عجوہ کھجور کا ذکر قرآن کریم میں بیس سے زائد بار آیا ہے۔ عجوہ کھجور حضور ﷺ کی محبوب ترین کھجوروں میں سے تھی۔ عجوہ کھجور میں ہر بیماری کی شفاء ہے۔

ہوٹل سے قریب ہی مسجد نبوی کے پر شکوہ مینار نظر آرہے تھے اور جب میری نظر سبز گنبد پر پڑی تو دل جیسے دھڑکنا بھول گیا ہو۔ مسجد اور میناروں سے پیہم نور اور روشنی کی شعاعیں پھوٹ رہی تھیں۔ نمازِ فجر کا وقت ہو چکا تھا نمازی تیزی سے مسجد نبوی کی طرف جارہے تھے۔ عقیدت مندوں کا ہجوم رنگ و نور کے سیلاب کی طرح لہریں مارتے ہوئے مسجد کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ہم بھی تیزی سے مسجد کی طرف چلنے لگے اور مسجد کے اندر نماز کے لئے بیٹھ گئے۔ پھر نماز کا وقت ہوگیا اور میں زندگی کی پہلی نمازِ فجر مسجد نبوی ﷺ میں پڑھنے لگا۔ امامِ مسجد نبوی کی ایمان افروز تلاوت سے روح تروتازہ ہورہا تھا۔ نماز کے بعد اب اردہ تھا دربار رسالت ﷺ میں سلام اور حاضری دی جائے۔ میرا دل و دماغ عجیب و غریب کیفیت کا شکار تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیا میں گناہ گار اس قابل ہوں کہ روضہ رسول پر حاضری دے سکوں۔ لوگوں نے برطانیہ سے آتے ہوئے مجھے کتنی دعائیں اور عر ضیاں تھما رکھی تھیں ۔ اس کے علاوہ دنیا بھر سے میرے کرم فرماؤں نے مجھ سے فرداً فرداً اپنے اپنے مسائل کے حل کے لئے دعا کی درخواست کی تھی۔ میں بے شمار دعاؤں اور عرضیوں کی پوٹلی سنبھالتا ہوا روضہ رسول ﷺ کی طرف بڑھتا رہا۔

روضہ رسولﷺ پر پہنچنے کے لئے ایک لمبی قطار لگی ہوئی تھی جس میں دنیا کہ ہر حصّے کے لوگ نظر آرہے تھے۔ منہ پر درود و سلام کا ذکر جاری تھا اور نگاہیں روضہ رسول ﷺ کی طرف ٹکی ہوئی تھی۔ لوگوں کی بے چینی اور بیقراری کا اندازہ مجھے ان کے دھکّے کھانے سے ہورہا تھا۔ آخر کار ہم روضہ رسول ﷺ پر پہنچ گئے اور میری آنکھوں سے اچانک آنسو نکل پڑے۔ دورد شریف پڑھتے پڑھتے میری آواز حلق میں پھنس گئی۔ میں روضہ رسول ﷺ پر تھوڑی دیر رکنے کے بعد دروازے سے اشکبار آنکھوں کے ساتھ باہر نکل آیا۔ اس طرح باقی دن بھی مسجدِ نبوی میں نماز پڑھتا اور روضہ رسول ﷺ کی زیارت کرتا۔

ایک روز جنت البقیع بھی جانے کا موقعہ ملا جس میں دس ہزار کے قریب صحابہ مدفون ہیں ۔ جس میں اہلِ بیت رسول بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تابعین و صالحین بھی یہاں مدفون ہیں۔ یہ قبرستان مدینہ منورہ کے جنوب مشرقی گوشے میں واقع ہے۔ اس میں داخل ہونے کے واسطے ایک دروازہ ہے جو باب البقیع کہلاتا ہے۔
میں مدینہ پاک اور روضہ رسول ﷺ کے تصور میں اس طرح سے گم تھا کہ مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ ہم کب لندن پہنچ گئے۔ لندن کی برفیلی سردی مدینے کی یاد کو منجمد کرنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ میں گھر پہنچ کر ہر اس پل کو یاد کر رہا ہوں جس کو میں نے اپنی روح میں سما رکھا ہے۔ میں نے اس بات کو بھی محسوس کیا ہے کہ میرا ایمان اور مضبوط ہو چکا ہے۔ میری اللہ سے یہی دعا ہے کہ یا اللہ ہر مسلمان کو مدینے کی سعادت
نصیب فرمائے۔ آمین

Leave a Reply