You are currently viewing مذہب نہیں سکھاتا آپس میں لڑتے رہنا

مذہب نہیں سکھاتا آپس میں لڑتے رہنا

لندن کی ڈائری
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں لڑتے رہنا
انگلینڈ کے اخبار میں ہندو مسلمان فساد کی خبر شائع ہونے سے برطانیہ میں رہنے والے بیشتر ہندوستانیوں میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ کیا ہندو کیا مسلمان سبھی اس خبر کو پڑھ کر کافی رنجیدہ ہوئے کہ آخر ایسا کیوں ہوا۔ خبر یہ تھی کہ شمالی ہندوستان کے صوبہ یوپی کے ضلع مظفر نگر میں پر تشدد فساد میں ۲۶ لوگوں کی جان چلی گئی۔ یہ جھگڑا اس وقت شروع ہوا جب ہتھیاروں سے لیس ہندو اور مسلمان کے درمیان ایک معمولی واقعہ کو لے کر فساد برپا ہو گیا۔
اس جھگڑے کی شروعات اس بات سے ہوئی کہ کوال علاقے کی ایک خاتون سے چند لوگوں نے چھیڑ خانی کی تھی جس میں تین لوگوں نے مداخلت کی تھی او ر بعد میں ان تین لوگوں کو جان سے ما ڈالا گیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد علاقے میں تناؤ کافی بڑھ گیا تھا اور بعد میں دونوں طرف کے لوگ تشدد پر اتر آئے جس میں ایک صحافی، ایک پولیس فوٹو گرافر اور کئی گاوں والوں کی جان چلی گئی۔
اس کے بعد تشدد اور بھی علاقوں میں پھیل گیا اور مرنے والوں کی تعداد لگ بھگ ۲۶ پہنچ گئی۔ اس کے بعد پورے یوپی میں ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا اور حساس علاقوں میں فوج کو اتار دیا گیا۔ آر ایم سریواستا نے بتایا کہ مظفر نگر کے تین علاقوں میں کرفیو لگا دیا گیا ہے۔ حکام کا دعوی ہے کہ حالات بہت کشیدہ ہیں لیکن کنٹرول میں ہیں۔
جھگڑا ہفتہ کو اس وقت شروع ہوا جب ہزاروں ہندو کسانوں نے کوال گاوں میں ایک میٹنگ بلائی اور اس بات پر احتجاج کیا اور انصاف کی مانگ کی کہ ان تین لوگوں کو کیوں مارا گیا جنہوں نے ایک عورت کو چھیڑ خانی کرنے پر مداخلت کی تھی جس کے نتیجے میں انہیں جان گنوانا پڑی۔
صوبائی حکومت کے فلاح و بہبود اور اقلیتی وزیر ، اعظم خان نے یہ کہا کہ گاوں والوں کی اس میٹنگ میں ہندوٗں نے مسلمانوں کے خلاف بھڑکاوٗ تقریریں کی تھی اور اس بات کی مانگ کی گئی تھی کہ اس کا بدلہ مسلمانوں کا قتلِ عام کر کے لیا جائے۔
سنئیر پولیس آفیسر ارون کمار نے کہا کہ اس میٹنگ کے بعد کسان جب واپس جارہے تھے تو وہ ہتھیاروں سے لیس تھے اور اس بات سے یہ پتا چلتا ہے کہ ان کا مسلمانوں پر حملہ کرنے کا پورا ارادہ تھا۔آس پاس کے علاقوں سے گولیوں کی فائرینگ کی آوا بھی سنائی دی ہے اور فسادات کے پھیلنے کی کی خبر بھی آ رہی ہے۔
اس اافسوسناک واقعہ میں ہندوستانی براڈ کاسٹ جرنلسٹ راجیس ورما جو کہ چینل آئی بی این 7 کے لئے کام کرتے تھے ابوپورا علاقے میں فساد کی رپورٹنگ کرتے ہوئے سینے میں گولی لگنے سے جان گواں بیٹھے ۔
دسمبر 1992 میں جب سولہوی صدی کی بابری مسجد کو ہندوءں نے شہید کیا تھا تو اتر پردیش کے کئی شہروں میں بھیانک فساد بھڑک اٹھی تھی اور جس میں ہزاروں لوگوں کی جانیں بھی گئیں تھیں۔
حکومت نے اس بات کی وارننگ دی ہے کہ حالیہ دنوں میں فرقہ وارانہ فساد میں کافی اضافہ ہوا ہے ۔ 2012 میں 410 فرقہ وارانہ فسادات ہوئے تھے جب کی اس سال اب تک 451 فرقہ وارانہ فسادات ہوچکے ہیں۔ ہندوستانی میڈیا کے مطابق صرف اگست میں فرقہ وارانہ فسادات سے ہندوستان کے بہار، ہوپی اور کشمیر میں کئی لوگ مارے جاچکے ہیں۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان فسادات کے پیچھے مقصد کیا ہیں؟کون لوگ ہیں جو یہ فساد کروارہے ہیں؟ زیادہ تر لوگ یہ مانتے ہیں کہ اس کے پیچھے سیاسی پارٹیوں کا ہاتھ ہے۔ خاص کر بی جے پی کا۔ جو کے اگلے سال کے الیکشن میں کسی طرح اپنی حکومت بنا نے کے لئے اس طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے بھی نہیں ہے دیکھا جائے تو پچھلے کچھ مہینوں سے بی جے پی نے نریندر مودی کو اپنا وزیر اعظم بنانے کا پروپگنڈا کر رہی ہے اور اس خبر سے بیشتر مسلمان اور ہندو دونوں میں ناراضگی پائی جا رہی ہے۔ کیونکہ نریندر مودی ایک مجرم ہیں اور جن پر ہزاروں مسلمانوں کے قتل کا الزام ہے۔
مظفر نگر میں ایک بی جے پی ایم ایل اے کی گرفتاری سے بھی یہ بات صاف ہوگئی کہ اس واقعے کو بڑھاوا دینے میں بی جے پی نے اہم رول ادا کیا ہے۔ لیکن حیرانی اس بات کی ہے کہ یوپی حکومت ان تمام واقعات سے غافل تھی۔ ہندو کسانوں نے میٹنگ بلائی اور پھر ہتھیاروں سے لیس ہو کر انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا اور حکومت خاموش تماشائی بنی دیکھتی رہی۔
برطانیہ کے ہندوستانی مسلمان اس واقعہ سے بہت دکھی ہیں اور وہ ہندوستانی حکومت کی ناکارہ انتظامیہ سے بھی سخت ناراض ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اگر حکومت چوکس رہتی اور انتظامیہ اس طرح کی میٹنگ نہ ہونے دیتی تو شاید یہ فساد نہ بھڑکتا جس میں نہ جانے کتنے بے قصور لوگوں کی جانیں چلی گئیں۔
عصمت دری کے مجرم کو پھانسی پر چڑھاوٗ
برطانیہ میں جب سے دلی کی عصمت دری کے حوالے سے جب بھی خبر نشر کی جارہی ہے تب سے برطانیہ کے ہر نسل کے لوگ اس خبر کو پڑھتے اور سنتے ہیں اور بے چینی سے اس کے فیصلے کا انتظار بھی کر رہے ہیں۔ اس ہفتے تمام اخبارات،ٹیلی ویزن اور ریڈیو پر دلی کے عصمت دری کی خبر نشر ہوئی۔ اس خبر میں جس بے دردی سے جن چار لوگوں نے لڑکی کی عصمت دری کی تھی جس سے انسان اپنی انسانیت کی پہچان کھو بیٹھتا ہے اور ہر طبقہ کے لوگ اس بات پر اپنے رنج و غم کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں۔ زیادہ تر ہندوستانی لوگوں کا ماننا ہے ان لوگوں کو پھانسی کی سزا ہونی چاہیے۔
یہ واقعہ دلی کے ایک آوٹ آف سروس بس میں ہوا تھاجب ان لوگوں نے ۲۳ سلہ لڑکی کو اس کے دوست کے ساتھ بس پر سوار ہونے کی دعوت دی۔ پولیس نے بتا یا کہ حملہ آوروں نے لڑکی اور لڑکے کو خوب مارا پیٹا اور پھر ان لوگوں نے لڑکی کی زبردستی عزت لوٹ لی۔ اس کے بعد ان لوگوں نے دونوں کو بس سے باہر پھینک دیا۔ لڑکی بری طرح زخمی ہوگئی تھی اور اسے نازک حالت میں سنگا پور کے اسپتال میں داخل کروایا گیا تھا جہاں وہ ذخموں کی تاب نہ لا کر ۲۹ دسمبر کو موت کے آغوش میں چلی گئی۔
دلی کی عدالت میں جب جج نے ان چار لوگوں کو مجرم قرار دیا تو لڑکی کے والدین اپنے آنسو نہیں روک پائے۔اس فیصلے سے لڑکی کے ماں باپ بہت خوش ہیں اور اس بات کی خواہش ظاہر کی ہے کہ ان تمام لوگوں کو اب جج کو موت کی سزا سنا دینی چاہئے۔ یہ چار لوگ پچھلے دسمبر میں اس گھناونے کام کے لئے مجرم پائے گئے تھے۔ ان لوگوں نے ۲۳ سالہ لڑکی کی بے دردی سے عصمت لوٹی اور پھر دو ہفتے بعد اس لڑکی کا انتقال ہوگیا۔ اس کی موت سے پورے ہندوستان میں زبردست احتجاج ہو اور لوگوں میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا۔ اس کیس نے حکومت پر دباؤ ڈالا کہ اس طرح کے مجرم کے لئے سخت قانوں ن بننے چاہئے۔
مکیش سنگھ،ونے شرما، اکشے ٹھاکر اور پون گپتا نے اپنے الزامات کو غلاط بتایا ہے اور ان میں سے ۳ مجرموں کے وکیلوں نے کہا ہے کہ وہ اس سزا کے خلاف اپیل کرینگے۔
ان مجرموں کے خاندان والوں کی حفاظت کے لئے پولیس تعینات کر دی گئی ہے اور روی داس نگر کالونی ،جنوبی دہلی میں صحافیوں کا ہجوم امڈ پڑا ہے۔اس کیس کے ایک اور مجرم رام سنگھ جیل میں پہلے ہی مردہ پائے گئے تھے۔ جیل کے آفیسر نے کہا تھا کہ اس نے خود کشی کی تھی لیکن رام سنگھ کے گھر والوں نے الزام لگایا ہے کہ اس کا قتل ہوا تھا۔
پون گپتا کا گھر باہر سے تالا لگا ہوا پایا گیا لیکن اس کی چھوٹی بہن اند موجودر تھی۔ اس کی بہن نے ایک مرتبہ چلاً کر رپورٹر سے کہا کہ تم لوگوں نے ہماری زندگی کیوں عذاب بنا رکھی ہے۔
اونے شرما کے علاقے کی ایک خاتون نے کہا کہ ان تمام مجرموں کو سزا ملنی چاہئے اور یہ بھی کہا کہ یہ لڑکا کبھی بھی خراب لڑکا نہیں تھا۔ اس بات کا مجھے یقین ہی نہیں آتا کے اس لڑکے نے ایسا گھناوٗنا جرم کیا ہے۔
یک مقامی عورت نے کہا کہ ان مجرموں کو سخت ترین سزا ملنی چاہئے اور قانون کے تحت ملنی چاہئے نا کہ صرف اس کیس میں ان کو سزا دیں کر باقی کیس کے مجرموں کو سخت سزا نہ ملے۔
ویسے یہ بات طئے ہے کہ ان لوگوں کو اس کیس میں موت کی سزا ملے گی۔ ویسے بھی زیادہ تر لوگ یہی چاہتے ہیں کہ ان لوگوں کو سخت سزا ملنی چاہئے۔ اس موقعہ پر سیکڑوں لوگ جو احتجاج کر رہے تھے ان کا یہی نعرہ تھا کہ ان لوگو ں کو پھانسی دو۔
اس خبر سے برطانیہ کا ہر طبقہ متاثر ہوا ہے اور اس خبر کی اشاعت اور نشریات لگاتار سنائی اور دکھائی جارہی ہے۔ ہندوستانیوں میں اس بات پر شدید ناراضگی ہے اور ہر کوئی اس کا فیصلہ پھانسی کی صورت میں دیکھنا چاہتاہے۔ زیادہ تر لوگ ا س بات کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ آخر اچانک ان دنوں عصمت دری کے واقعات میں اضافہ کیوں ہوگیا ہے۔
میں مانتا ہوں کہ سماج میں شعور اور تہذیب کی بہت کمی ہوگئی ہے جس کی وجہ سے سماج کا ایک طبقہ ایسی گھنونی حرکت کرنے سے باز نہیں آرہا ہے۔ ضرورت ہے کہ سخت سزا کے ساتھ سماج کی برائیوں کی بھی اصلاح کی جائے تا کہ آنے والے دنوں میں اس طرح کے واقعات پھر نہ ہو۔

Leave a Reply